اسلام آباد (فاروق اقدس تجزیاتی جائزہ) تنظیمی منصب سبنھالنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے میاں نواز شریف آج اپنی تقریر میں مفاہمت کا بیانیہ پیش کرتے ہیں یا مزاحمت کا، عوامی مقبولیت کا درجہ حاصل کرتے ہیں یا قبولیت کا آسان رستہ اختیار کرتے ہیں اس حوالے سے ان کی تقریر غیر معمولی طور پر اہم ہوگی جس پر سیاسی اور غیر سیاسی تمام حلقوں کی نظریں اور بھرپور توجہ ہوگی وزیراعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے 28 مئی1998 کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کیا آج28 مئی کو وہ کوئی بڑا سیاسی دھماکہ کرسکتے ہیں خود مسلم لیگ (ن) کے بعض حلقے یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ نواز شریف مریم نواز کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے منصب کو مضبوط کرنے کیلئے اپنی تنظیمی طاقت کو استعمال کرینگے لیکن اس مقصد کیلئے وہ سمجھوتوں پر آمادہ نہ ہوجائیں ان حلقوں کے مطابق اگر میاں نواز شریف کے بیانیے اور مزاحمتی سیاست سے مریم نواز کے منصب کو سیاسی ٹھیس نہ پہنچی تو وہ تیزی سے اگلی منزل کی طرف گامزن ہوسکتی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں آج 28 مئی کو رسمی کارروائی کے بعد 3مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو پارٹی کا صدر منتخب کرلیا جائیگا۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہو گا کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد دوبارہ اپنا تنظیمی منصب سنبھال رہے ہیں۔ اس سے قبل پرویز مشرف کے آمرانہ دور حکومت میں بھی ان کیلئے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے تھے کہ انہیں اپنی اس تنظیمی ذمہ داری سے الگ ہونا پڑا تاہم 2010ء میں وہ دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب کرلئے گئے تھے پارٹی کے جنرل کونسل کے اجلاس میں نواز شریف کو صدر منتخب کرنے کی تاریخ میں دو مرتبہ تبدیلی کی گئی تھی اور یہ فیصلہ خود میاں نواز شریف کی تجویز پر 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقعہ پر کرنے کیلئے اتفاق رائے سے ہوا تھا کیونکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے پاکستان کی تاریخ کا بھی ایک اہم فیصلہ کیا تھا جو بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سپر پاور کی ترغیبات اور دیگر ممالک کے دبائو کے باوجود 28 مئی 1998ء کو چاغی کے مقام پر 5دھماکے کر کے دیا تھا جسے یوم تکبیر کے نام سےموسوم کیا گیا اس طرح پاکستان دنیا کا واحد جوہری طاقت والا پہلا مسلم ملک بنا۔ دوسری جانب آج ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کی سیاسی صورتحال جو کسی مثبت اقدام کیلئے فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے خود میاں نوازشریف بھی فیصلے کے اس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ انہوں نے اپنی نئی ذمہ داریوں کے حوالے سے کس راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ مفاہمت یا مزاحمت کا قبولیت یا مقبولیت کا اس حوالے سے آج جنرل کونسل کہ اجلاس میں ان کی تقریر نا صرف غیر معمولی طور پر اہم ہو گی بلکہ کئی حوالوں کہ تناظر میں فیصلہ کن بھی ہو سکتی ہے اور یقینی طور پر مسلم لیگی کارکنوں رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازوں اور صورتحال کے پیش نظر اپنے اختیارات کی طاقت سے فیصلے تبدیل کرنے والے حلقوں کی نگاہیں اور توجہ بھی میاں نوازشریف کی تقریر پر ہو گی۔