• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر … لیسٹر
افکار و مسائل میں اختلاف رائے کا اظہار کوئی جرم نہیں ہوتا بلکہ اختلاف رائے سے مسائل عموماً سلجھتے ہیں لیکن طے شدہ معاملات کو بلا وجہ چھیڑنا بھی کوئی دانشمندی نہیں۔ خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی کا ہر معاملہ ہی متنازع بنتا جا رہا ہے، انتشار ہی انتشار ہے، ایسے ماحول میں جو معاملات برسوں سے متفق علیہ چلے آ رہے ہیں انہیں چھیڑنا قطعاً مناسب نہیں ہے، ایسا ہی ایک معاملہ قرار دادِ مقاصد ہے، کوئی کہتا ہے کہ اس قرار داد کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کوئی دور کی کوڑی لاتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ قرار دادِ مقاصد پاس کیے بغیر اصل اسلام تو ڈنمارک میں نافذ ہے، کوئی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت غیر مسلموں کی تعداد 20 سے 25فیصد تھی اب دوسے تین فیصد کیوں رہ گئی ہے، کسی کو دکھ ہے کہ پاکستانی وزیرمسٹرمنڈل بد دل ہو کر بھارت کیوں واپس چلے گئے تھے، در حقیقت اس طرح کی باتیں کرنے والوں کا اصل ہدف اسلام کا حیات آفرین نظام ہے جس کی مخالفت قراردادِ مقاصد کی آڑ میں مخالفت کرتے ہیں۔ قرار دادِ مقا صد قائدِ اعظم کے قریبی ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خاں نے پیش کی تھی، جسے پہلی دستور ساز اسبلی نے بحث و مباحثہ کے بعد 12مارچ 1949کو منظور کیا تھا۔ اس قرارداد کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ یہ ہمارے تمام دساتیر کا حصہ رہی پہلا دستور 1956میں بنا یہ اس کا حصہ تھی۔ ایوب خاں نے جب اپنا دستور بنا کرقوم پر مسلط کیا۔ اس وقت بھی یہ اس کا بھی حصہ تھی پھر 1973کے دستور میں بھی اسے شامل کیا گیا جسے سب جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ حتیٰ کہ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے ادوار میں اسے اپنائے رکھا۔ یہ قرار داد مملکتِ خدا داد کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ تاکہ ایسا آئین بنایا جائے جو نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ ہو۔ ظاہر ہے دو قومی نظریہ قیامِ پاکستان کی قوتِ محرکہ تھی اس کی بقا بھی اسی نظریہ سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے نظامِ سیاست، نظامِ معیشت اور نظامِ معاشرت کو اسلام کے زرین اصولوں کے مطابق استوار کرنے کے لیے اس کی اشد ضرورت تھی۔ قراردادِ مقاصد کے حوالے سے سب سے زیادہ واویلا اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا کیا جاتا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے جو لوگ مسٹر منڈل کے بھارت واپس چلے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ انہیں ایسا کرنے کے لیے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد کتنے غیرمسلم وزیر بنے ہیں۔ عدالتِ عالیہ کے جج مقرر ہوئے ہیں۔ قوم ان کے فیصلوں کی وجہ سے آج بھی ان پر فخر کرتی ہے۔ جسٹس اے آرکارنیلس اور جسٹس دراب پٹیل جیسی قابلِ ذکر مثالیں موجود ہیں۔ کچھ حضرات غیر مسلموں کی آبادی کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے انہیں ملک بدر کر دیا گیا ہو، یہ تاثر بالکل بے بنیاد ہے، قیامِ پاکستان کے وقت غیر مسلموں کی زیادہ آبادی مشرقی پاکستان میں تھی جو آبادی کے لحاظ سے بھی مغربی پاکستان سے بڑا صوبہ تھا۔ تقریبا" 25 فیصد ہندو مشرقی پاکستان میں آباد تھے، مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کا تناسب آج بھی وہی ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت تھا۔ اس لیے یہ واویلا بلا وجہ ہے، جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کا تعلق ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مقابلے میں دوھرے ووٹ کا حق حاصل ہے، وہ عام انتخابات میں بھی بھر پور حصہ لیتے ہیں، نیز اپنے مخصوص نمائندے بھی پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں ہوتا، ویسے بھی اسلام جتنے حقوق غیر مسلموں کو دیتا ہے، سیکولر ریاست نہیں دے سکتی، سیکولر ریاستوں میں انبیاء کرام کے کارٹون بنا کر دل آزاری کی جاتی ہے لیکن اسلام مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا، پاکستان کا اصل مسئلہ قرار دادِ مقاصد نہیں بلکہ اقتدار پر مسلط سیکولرطبقہ ہے جو ایک طرف ملکی وسائل ہڑپ کر رہا ہے اور دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے زریعے دن بدن معاشرتی بگاڑ میں اضافے کا مرتکب ہو رہا ہے، ان دو بڑی وجوہات کے باعث ملک معاشرتی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتا جا رہا ہے، دگرگوں معاشی اور معاشرتی حالات کے باعث کئی برائیاں جنم لے رہی ہیں، اس لیے ریاست کا اصل مسئلہ قرار دادِ مقاصد نہیں بلکہ ظالم اشرافیہ ہے۔ جس سے نجات وقت کی اہم ضرورت ہے، یہی اشرافیہ اقلیتوں کے مسائل میں بھی رکاوٹ ہے، ممتاز اقلیتی ممبر رمیش کمار نے جب شراب پر مکمل پابندی کا بل پیش کیا تو اسی طبقے نے اسے پاس نہیں ہونے دیا تھا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ثانوی مسائل کی بجائے حقیقی مسائل کو زیرِ بحث لایا جائے۔ تاکہ ریاستی مسائل سے نجات ممکن ہو سکے، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
یورپ سے سے مزید