اسلام آباد(رپورٹ:۔رانا مسعود حسین ) سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو الیکشن کمیشن نے کس قانون اور اختیار کے تحت آزاد امیدوار قراردیا ،ان کا پارٹی سے تعلق کو کیسے ختم کیا ؟ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ جب ایک امیدوار نے ایک پارٹی سے تعلق کا حلف نامہ دیا اور پارٹی کا سرٹیفکیٹ بھی جمع کرادیا تو پھر اسے اس جماعت کا امیدوار کیوں ڈکلیئر نہیں کیا گیا ؟ اس معاملے میں انتخابی نشان کہاں سے لے آئے ہیں؟، الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان سے ابہام پیدا کیا ، انتخابی نشان اور پارٹی سے تعلق دو الگ الگ چیزیں ہیں، الیکشن کمیشن امیدوار کی حیثیت تبدیل کررہا ہے، جس پارٹی کا سرٹیفکیٹ لایا جارہا ہے اسی پارٹی کے امیدوار کو تصور کیوں نہیں کیا جارہاہے؟، ایک امیدوار کو تحریک انصاف کا امیدوار کیوں نہیں سمجھتے؟ بات سمجھ نہیں آرہی ہے َ؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر اب بھی کھڑی ہے،لیکن اس کے فیصلے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن سے ہی باہر کردیا جائے ، آپ نے بڑی آسانی سے کہہ دیاکہ نشان نہیں ملا تو آزاد امیدوار ڈیکلیئرکردیں، اتنابڑا فیصلہ کیسے کرلیا گیا؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ان امیدواروں کو بھی آزاد قراردیا گیا ہے جن کا حلف نامہ اور سرٹیفکیٹ ایک ہی جماعت کا تھا،الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کرکے بڑی جماعت کو انتخابات سے باہر کردیا ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا الیکشن کمیشن صرف اس صورت میں ہی انہیں آزادا میدوار قراردے سکتاتھا جب کسی جماعت نے انہیں نامزد نہ کیا ہوتا ، جسٹس جمال خان مند وخیل نے کہا کہ صاحبزادہ حامد رضا کیسے آزا دڈکلیئر کیا گیا ہے؟ ، جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ 6 امیدواروں نے سرٹیفکیٹ اور ڈیکلریشن ایک ہی پارٹی کا بھی دیا، ان کو بھی الیکشن کمیشن نے آزادامیدوار قرار دیدیا ،جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ آزاد قرار دینے سے پہلے کیا امیدواروں کو حلف نامے واپس لینے کا کہا گیاتھا ؟کیا ان سے رائے معلوم کرنا ضرورری نہیں تھی ؟،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر یہ پی ٹی آئی کے امیدوار تھے تو پھر پی ٹی آئی میں رہیں گے سنی اتحاد کونسل میں نہیں جاسکتے ہیں۔