اسلام آباد (ایجنسیاں) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک بھر عام انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے ملک میں نئے شفاف اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ادارے انتخابات سے دور رہیں‘ کوئی مداخلت نہ کریں‘قوم کو ووٹ کا حق دیا جائے ‘ریاست کب عوام کا احساس کرے گی‘کیا امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں ہے لہذا ریاست کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا‘ تحریک انصاف مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ‘ خواجہ آصف کے بیان کا انداز پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی علامت نہیں‘ افغانستان کے معاملے پر قوم کو بلیک میل مت کرو‘ عزم استحکام آپریشن پر اداروں میں یکسوئی نہیں‘ آج تک جتنے بھی آپریشنز ہوئے اس کے بعد دہشت گردی دس گناہ کیوں بڑھ گئی ہے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کے دوروزہ اجلاس کے بعد اتوار کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہناتھاکہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف تحریک جاری رکھیں گے ‘ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں ‘ سیاسی معاملات میں مداخلت فوج کے حلف کے منافی ہے جسے ہم تسلیم نہیں کرتے‘انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت میں یکسوئی کی کمی ہے، پی ٹی آئی قائد کی طرف سے وفود بات تو کرتے ہیں مگر ابھی تک کوئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کے بیانات جے یو آئی کے ساتھ نہ چلنے کی بات کررہے ہیں، پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل ابہام کو دور کریں، ہم مشترکہ اہداف اور مذاکرات سے انکار نہیں کرتے۔جمعیت علما ئے اسلام پاک چائنا تعلقات کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے تاہم حکومت سرمایہ کاری کے لیے چائنا کا اعتماد بحال نہیں کرسکی۔ کہا گیا کہ ہم افغانستان کے اندر جاکر حملے کریں گے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔تم نے افغانستان پر امریکیوں کو حملے کی اجازت دی اور امریکی جہازوں کو بمباری کی اجازت دی۔جب پاکستان میں دہشت گردی کو کنٹرول نہیں کرسکے تو افغانستان کے معاملے پر قوم کو بلیک میل مت کرو‘خواجہ آصف کے بیان کا انداز پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی علامت نہیں‘ جہاں ایسی جنگی تربیت کے نتیجے میں فیصلے ہوں گے تو پھر اسی طرح ہوگا، ایسے فیصلوں سے پھر خطے میں کوئی ہمارا دوست نہیں رہے گا۔نہ ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور نہ ہی ہمارے دل کی آنکھیں کھلی ہیں۔