فکر فردا … راجہ اکبرداد خان وزیراعظم شہبازشریف کی عمران خان کو مذاکرات کی دعوت جو انہوں نے پارلیمان کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں دی، معاملات کو آگے بڑھانے کی طرف ایک اچھا قدم ہے۔ یہ درست ہے کہ ان دونوں رہنمائوں کے درمیان کافی عرصہ سے جو سیا سی خلیج موجود ہے، وہ اس اہم بیان کے بعد فوری طور پر ختم تو نہیں ہوسکتی مگر ایسی سنجیدہ کوششیں برف پگھلنے کی طرف مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت گرانے میں مسلم لیگ ن جس کے اس وقت قائد وزیراعظم خود تھے نے مرکزی کردار ادا کیا، مگر یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ آج دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف گلے شکوئوں کے انباروں سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں جو آسان کام نہیں۔ عمران خان تقریباً پندرہ ماہ سے جیل میں ہیں۔ ان کا اپنی جماعت کے قائدین سے بھی وہ رابطہ نہیں، جو جیل سے باہر جماعتی قائدین کو حاصل ہے۔ بانی اپنی جماعت کے لوگوں سے جیل حکام کی مرضی کے مطابق ہی مل سکتے ہیں۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔ ان کے خیالات کئی مرحلوں سے گزر کر ہم تک پہنچتے ہیں۔ کہاوت ہے کہ بند لفافوں میں بھی پیغام بدل جاتے ہیں۔ وزیراعظم یقیناً سنجیدہ ہیں کہ جلد پی ٹی آئی چیف سے بات چیت کا ماحول بن جائے تاکہ وہ بھی سیاسی اور معاشی ماحول کو اوپر اٹھانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ ایک سازگار ماحول میں وقت گزرنے کے بعد ملک پھر سے ایک مستحکم پاکستان کی شکل میں ابھرتا نظر آنا چاہیے۔ پی ٹی آئی قیادت جو اپنے قائد پر اندھا اعتبار کرتی ہے کو عمران خان اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ پروموٹ کرنے کے لیے اپنی اجتماعی سوجھ بوجھ کو درمیان میں لاکر بند دروازے کھولنے میں مدد کرنی پڑے گی۔ عمران خان مضبوط اعصاب کے مالک سیاست ہیں۔ وہ حالات سے گھبراکر فیصلے نہ کرنے والا فرد ہے، ان کی اپنی ایک انا ہے جن مشکل حالات نے انہیں اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے، ان میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی اور کسی نہ کسی مرحلے پر ان کو حکومت جس کو وہ شاید آئینی تسلیم نہیں کرتے، مگر بات کرنی پڑے گی۔ ان کی نظر شاید سپریم کورٹ سے آنے والے دو فیصلوں پر ہوگی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کی مشکلات میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ میڈیا میں نئے کیسز کے تذکرے ہیں۔ حکومت نئے کیسز کے حوالے سے ’’انتظار کرو اور دیکھو۔‘‘ کی پالیسی پر چل رہی ہے، جس طرح آپ کے خلاف ڈھائی سو کے قریب مقدمات بنے، جن میں سے بھاری تعداد میں ختم ہوچکے ہیں۔ صرف چند ایک باقی ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے اس بڑے بیان پر رنگ چڑھانے کے لیے چند قدم عمران خان کی طرف بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم یہ جانتے ہیں کہ عمران قیادت میں ہیں۔ ان کے ساتھ ایک ڈائیلاگ پراسس کا آغاز کرنے کے لیے وزیراعظم خود یا اپنے کسی ساتھی کے ذریعہ براہ راست بانی سے ملاقات کریں۔ حکومت کی اس ڈائریکٹ اپروچ کو پاکستان کے عوام قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور عمران خان بھی ایسی مثبت اپروچ کو ٹھکراکر عوام کی ناراضگی مول لینے کا قدم نہیں اٹھا سکتے۔ وزیراعظم ملاقات کا ماحول سازگار بنانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنان کی جو بھاری تعداد قید ہے کی رہائی کے لیے اقدامات کریں۔ اس سارے پراسس میں وقت لگ سکتا ہے مگر یہ وزیراعظم کا شروع کردہ پراسس اسے باوقار انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچانا ایک قومی ذمہ داری ہے۔ قطع نظر کہ اعلیٰ عدلیہ بانی کے کیسوں سے کس طرح نمٹتی ہے۔ حکومت کو اپنے چنے ہوئے راستے پر سفر جاری رکھنا چاہیے۔ صدر زرداری بڑی صلاحیتوں والے جمہوریت پسند فرد ہیں، ان کی جماعت کا بڑا حصہ وزیراعظم کی پی ٹی آئی حوالہ سے ایسی اپروچ کے بانی سے مکالمہ قومی مفاد میں ہے سے اتفاق کرے گا۔ عمران خان بھی چاہتے ہوں گے کہ وہ ملک کی کھلی فضائوں میں اپنے جماعتی کارکنان کے ہمراہ ملک کو درپیش مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں۔ پی ٹی آئی کو بحیثیت ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کے حوالہ سے ’’ہم نہ مانیں‘‘ کے مائینڈ سیٹ سے نکل کر حکومت سے بامقصد مکالمہ کے لیے نہ صرف تیار رہنا چاہئے بلکہ ہر موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی تمام کوششیں بانی کی رہائی کیلئے صرف کرنی چاہیں۔ جمہوریت کی بقاء کیلئے اس جماعت کا ایک متحد شکل میں موجود رہنا ضروری ہے۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ حزب اختلاف کا وجود قائم رہے تاکہ بین الاقوامی دنیا میں پاکستان کو ایک جمہوریت پسند ملک تسلیم کیا اتا رہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے مثلاً ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایسے دیگر متعدد ارادے جو ہماری معیشت پر نظر رکھتے ہیں مطمئن رہیں، پیپلز پارٹی کو بڑے بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد آج کی پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات سے کہیں زیادہ مشکل حالات سے گزرنا پڑا، مگر جس طرح پی ٹی آئی اور اس کے قائد کو روزمرہ کی بنیاد پر ہراساں اور تذلیل کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جہاں خان کے خاندان کی خواتین کو مشخلات سے دوچار کیا جارہا، ایسی نامعقول حرکتوں کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم کو اپنے اس پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے ایسی نامعقول حرکتوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کرنے ہوں گے، تب ہی ملاقات کی خواہشات پر رنگ چڑھ سکتا ہے۔