• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

ماہ ِمحرم کے محترم ،معزز اور قابل شرف ہونے کی بناء پراسے ’’محرم الحرام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نیز قرآن کریم میں بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کو خصوصی حرمت اور تقدس حاصل ہے، ان عظمت والے مہینوں میں سے بھی پہلا بالاتفاق محرم کامہینہ ہے، رجب، ذی قعدہ اورذی الحجہ بھی شامل ہیں۔ 

اسلام میں ان مہینوں کی حرمت اورعظمت اور زیادہ ہوگئی۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ماہ محرم کواس کے شرف کی وجہ سے ’’شہراللہ‘‘یعنی اللہ کامہینہ کہا گیا ہے۔ محرم الحرام کی اسی بزرگی اور برتری کی بناء پرحدیث میں ارشاد فرمایا گیا :رمضان کے بعدسب مہینوں سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد تہجد کی نمازافضل تر ہے۔ (صحیح مسلم)

اس ماہ معظم کے ایام میں عاشوراء یعنی دسویں تاریخ کوخصوصی عظمت حاصل ہے، اور اس کی بنیادکئی واقعات ہیں ،جنہیں حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت سے قیامت کے وقوع کے دن تک بیان کیا جاتا ہے، تاریخ انسانی کے کئی بڑے اہم واقعات کواس دن کی طرف منسوب کیاجاتا ہے۔

یہ بھی یادرہے محرم کی یہ شان ازلی وابدی ہے، محرم الحرام اپنے اس امتیاز میں کسی زمان ومکاں کاپابند نہیں، بلکہ خودزمان ومکاں کسب شان میں محرم الحرام کے پابند ہیں۔ البتہ اس مہینے کے بارے میں سرکاردوعالم ﷺ سے دواعمال سندصحیح کے ساتھ ثابت ہیں جن کے کرنے کاترغیبی حکم دیا گیا ہے:

۱۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء کاروزہ رکھنا۔ اس بارے میں بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہل کتاب کواس دن کاروزہ رکھتے ہوئے پایا، جب اس کا سبب دریافت کیا گیا توانہوں نے کہاکہ اس دن بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فرعون کے ظلم سے نجات پائی تھی اورفرعون مع اپنے ساتھیوں کے دریائے نیل میں غرق ہوا،اس لیے بطور شکرانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کاروزہ رکھا، حضوراکرمﷺ نے فرمایا، پھر ہم اس کے تم سے زیادہ حق داراورحضرت موسیٰ ؑکے زیادہ قریب ہیں۔

چناںچہ حضوراکرمﷺ نے اس دن کاروزہ رکھا اوردوسروں کوبھی حکم فرمایا۔(صحیح بخاری)البتہ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ :جب رسول اللہﷺ نے عاشوراء کے دن خودروزہ رکھنے کو معمول بنایا اورصحابۂ کرام ؓکواس کاحکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ: یارسول اللہﷺ !اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کاقومی ومذہبی شعار ہے) تو آپ ﷺنے فرمایا: ان شاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں محرم کوبھی روزہ رکھیں گے(تاکہ تشبہ والی بات باقی نہ رہے)حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ، لیکن اگلے سال ماہ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وصال فرماگئے۔ تو اس روایت میں یہود کے ساتھ اشتباہ سے بچنے کے لیے یہ بھی فرمایاکہ:اگرآئندہ سال رہاتوان شاء اللہ ہم اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی رکھیں گے۔

اس لیے فقہاء لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی ملالینا چاہیے، بہتریہ ہے کہ نویں، دسویں تاریخ کاروزہ رکھا جائے، اگر نویں کاروزہ نہ رکھ سکے تو پھر دسویں تاریخ کے ساتھ گیارہویں تاریخ کا روزہ ملا لینا چاہیے، تاکہ مسلمانوں کا امتیاز برقرار رہے۔ اگرچہ بعض اکابرعلماء کی تحقیق یہ ہے کہ فی زمانہ چونکہ یہودونصاریٰ اس دن کاروزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کاکوئی کام بھی قمری حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب اس معاملے میں یہود کے ساتھ اشتراک اور تشبّہ نہیں رہا، لہٰذا اگرصرف دسویں تاریخ کاروزہ رکھاجائے، تب بھی حرج نہیں۔

اس ماہ کی دسویں تاریخ کے روزے کی فضیلت بھی صحیح احادیث میں رسول اللہﷺ سے منقول ہے ،چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس دن کے روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک سال (گزشتہ ) کے گناہوں کاکفارہ فرمادے گا‘‘۔

۲۔اس دن اپنے اہل وعیال پرکھانے پینے میں فراوانی اور وسعت کرنی چاہیے، احادیث مبارکہ سے اس عمل کابھی ثبوت ہے، چنانچہ مشکوٰۃ شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابن مسعودؓ رسول کریم ﷺکایہ ارشادنقل فرماتے ہیں کہ’’جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ سارے سال (اس کے مال وزر میں) وسعت عطا فرمائے گا‘‘۔ بزرگوں میں سے حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کاتجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔

مذکورہ بالاتفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ عاشوراء کے دن صحیح احادیث کے ذریعے یہ دو کام آقائے دوجہاںﷺ سے منقول ہیں۔ ایک دسویں تاریخ کاروزہ رکھنا اور دوسرا اپنے زیرکفالت افراد پر رزق میں فراوانی اختیار کرنا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی سمجھ اور عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔(آمین)