• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی سیاست میں ہاتھ پر بوسہ دینے کی روایت کیا اور کیوں ہے؟

تصویر بشکریہ برطانوی میڈیا
تصویر بشکریہ برطانوی میڈیا

کیئر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے برطانیہ کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

اس کامیابی کے بعد رشی سنک نے وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب ان کی جگہ کیئر اسٹارمر نئے وزیراعظم ہوں گے۔

برطانیہ میں نئی حکومت کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے کچھ روایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک عمل ’ہاتھ پر بوسہ دینا‘ ہے جس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہیں۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق الیکشن نتائج سامنے آنے کے بعد سبکدوش ہونے والا وزیراعظم بادشاہ سے ملاقات کرتا ہے اور اپنا استعفیٰ پیش کرتا ہے، ایسا نئی حکومت کی تشکیل  کے لیے کیا جاتا ہے۔

ایک بار جب یہ استعفیٰ جمع ہو جاتا ہے تو بادشاہ مختصر مدت کے لیے برطانیہ کے اختیارات سنبھال لیتا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق رشی سنک نے انتخابی نتائج کے فوراً بعد ہی اپنا استعفیٰ کنگ چارلس کو پیش کردیا تھا جسے فوری طور پر منظور کر لیا گیا تھا۔

وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ تمام وزراء نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق الیکشن نتائج کے بعد نامزد وزیراعظم اور برطانوی بادشاہ کی رسمی اور روایتی ملاقات ہوتی ہے جس میں باقاعدہ طور پر بادشاہ سے حکومت بنانے کی منظوری لی جاتی ہے۔

بکنگھم پیلس کے مطابق یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بادشاہ نئے وزیراعظم کا تقرر کرتا ہے اور اسی وقت ہاتھ کو چوما جاتا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس شخص کو وزیراعظم مقرر کردیا گیا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق اس روایت کو نئے وزیراعظم کی طرف سے بادشاہ سے وفاداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ نئی حکومت ملکہ/ بادشاہ کے نام پر قائم کی گئی ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق ابھی تک اس بارے میں کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے کہ وزرائے اعظم باقاعدہ بادشاہ کے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم گورڈن براؤن نے کہا تھا کہ یہ رواج ختم کردیا گیا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ ملکہ سے ملاقات کے وقت انہیں شاہی محل کی جانب سے ان سے کہا گیا تھا کہ وہ نرمی سے بوسہ دیں۔

دوسری جانب بہت سے دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ بادشاہ کے ساتھ صرف ایک رسمی مصافحہ بھی کافی ہوتا ہے اور اسے ’ہاتھ پر بوسہ‘ دینا سمجھا جاسکتا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر بادشاہ سے ملاقات کے لیے اپنی ذاتی گاڑی میں آئے تھے لیکن بکنگھم پیلس سے وہ سرکاری گاڑی میں روانہ ہوئے جو کہ پُرامن اور باضابطہ جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی علامت ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق کنگ چارلس سے کیئر اسٹارمر کی ملاقات اور دونوں شخصیات کے مصافحے کو ’ہاتھ پر بوسہ‘ دینے کی روایتی تقریب سمجھا جارہا ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید