اسلام آباد(اے پی پی/جنگ نیوز) وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہےکہ ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے کام میں سستی اور تاخیری حربے برداشت نہیں کیے جائیں گے‘فیصلوں پر عملدر آمد اور نفاذ کرنا ہوگا، سب نے ٹارگٹ پورے کرنے ہیںجبکہ وفاقی کابینہ نے پاکستان میں قانونی طورپر مقیم ساڑھے 14لاکھ افغان مہاجرین کے رجسٹریشن کارڈز میں ایک سال توسیع ‘جاویدقریشی کو حکومت کی جانب سے کے الیکٹرک میں ڈائریکٹر تعینات کرنے ‘ پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کو ختم کرنے کے لائحہ عمل کی منظوری دے دی‘پی ایم ڈی سی کے معاملات پر کمیٹی قائم کردی گئی جبکہ کابینہ کو بتایا گیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘امورِ کشمیر و گلگت بلتستان، ریاستوں اور سرحدی امور، صنعت و پیداوار اور قومی صحت کی وزارتوں کے غیر ضروری ذیلی اداروں کو بند کرنے اور ضروری اداروں کی رائٹ سائزنگ کے حوالے سے بنیادی معلومات کے حصول کا عمل 12 جولائی تک مکمل ہو جائے گا، اسی طرح 19 جولائی سے وفاقی حکومت کی دیگر وزارتوں سے اس نوعیت کی معلومات حاصل کر کے دیگر اداروں کو بند یا ضم کرنے کی سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس بدھ کو یہاں منعقد ہوا۔ شہبازشریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےکہاکہ کسی نے سستی سے کام لیا توبرداشت نہیں کروں گا کمر کس لیں، پاکستان کے مسائل کو حل کرنا ہے، اپنے ٹائم کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دوں گا‘سکیورٹی معاملات میں تعاون سے قومی اتحاد اور یکجہتی کو تقویت ملے گی، معاشی اہداف کے حصول کے لئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے، معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے کڑوے فیصلے اور اصلاحات کرنا ہوں گی‘پی ڈبلیو ڈی کوختم کرنے سے انکار کسی صورت قابل قبول نہیں ،چین کےساتھ تعاون کو فروغ پر تیزی سے پیشرفت یقینی بنانا ہو گی‘ تمام وزارتوں کو کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔وقت تیزی کےساتھ گزر رہا ہے ،معاشی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔شہباز شریف نے کہاکہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس 10 سے 12 بحری جہاز ہیں لیکن تنخواہیں 500 ارب روپے ہیں اور5ارب ڈالر ملک سالانہ بحری جہازوں کے کرائے کی مد میں ادا کرتا ہے۔ کراچی بندر گاہ میں 1200 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے‘ کرپشن کا سد باب کرکے وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کریں گے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان کے پاس ہم سے کئی گنا زیادہ بحری جہاز ہیں۔ریئل اسٹیٹ کے شعبے پر ٹیکسز سے 100 ارب روپے کے حصول کی توقع ہے‘یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دیاجائےاور دیگر ایسے شعبوں کو چھوڑ دیں جو ٹیکس دینے کی استعداد رکھتے ہیں۔