• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
سپریم کورٹ کے فل بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر ایک ایسا تاریخی فیصلہ سنایا جس کی نظیرنہیں ملتی۔ 8فروری کے انتخابات کے اردگرد جو ’’اینٹی پی ٹی آئی‘‘ ہوکر عبوری حکومت نے اپنی من پسند جماعتوں کو مرکز سندھ اور پنجاب میں جتوایا، باالخصوص مخصوص نشستوں کے حوالہ سے جو بندر بانٹ کی گئی اور جس کے ذریعے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے مکمل طور پر محروم کردیا گیا، اس سارے معاملہ کو نہایت باریک بینی سے دیکھتے ہوئے ججز کا یہ فیصلہ کہ پی ٹی آئی ایک جماعت ہے اور اس کے ارکان اسمبلیوں میں موجود ہیں لہٰذا ہر اسمبلی کے اندر مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کا حق ہے۔ جمہوریت اور انصاف پسندی کا مظہر فیصلہ ہے جس کیلئے تمام جج صاحبان کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ مخصوص نشستوں کا معاملہ پیچیدہ نہیں مگر ملک کے طرز انتخاب کی ریپوٹیشن اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کی ساکھ کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں اگر عبوری حکومتیں کچھ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن کی ہمنوا نہ بنیں تو یو مسائل پیدا ہی نہ ہوتے مگر یہاں پی ٹی آئی امیدواران کیلئے ایسے اتحاد بنے کہ ایک طرف پی ٹی آئی تھی تو دوسری طرف الیکشن کمیشن چند دیگر سیاسی جماعتیں (جو آج مرکز میں اقتدار پر قابض ہیں) اور عبوری حکومتوں کا اتحاد تھا مخصوص نشستوں کے کیس کے حوالہ سے جس طرح کی بردباری اور معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوششوں کا اظہار سننے اور دیکھنے کو ملا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ فیصلہ پہن پہنچنے سے قبل محترم جج صاحبان کے کئی اجلاس ہوئے۔ فیصلہ بھی8-5کی اکثریت کا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام جج صاحبان نے معاملہ کو نہایت پُرمغز انداز میں وکلا کو بھی سنا اور باہمی مشاورت کو بھی نمٹایا اور اس طریقہ سے اپنی آئینی اور قومی ذمہ داریاں نمٹائیں، یاد رہے جب اس کیس کو جج صاحبان سن رہے تھے تو محترم چیف جسٹس نے ایک آبزرویشن دی تھی جس کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے کہ ہم (جج صاحبان) کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم نے اس معاملہ کو صرف آئینی نقطہ نظر سے دیکھنا ہے یا ہم نے وسیع تر انصاف کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں۔ 8-5کی اکثریت کا یہ فیصلہ وسیع تر انصاف کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ایک جامع فیصلہ ہے۔ جس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کو اپنی کھوئی ہوئی جماعتی شناخت بھی مل گئی۔ چیف جسٹس محترم اگرچہ اقلیت ججوں میں شامل ہیں، جب انصاف کی بحث چل پڑی تو اسے محدود کرنا ممکن نہ رہا، مگر انہوں نے اپنی اور اپنے ساتھی جج صاحبان کی آرا کو نہایت اہل انداز میں چینل کرکے اپنا قائدانہ رول قابل فخر انداز میں ادا کیا ہے۔ حکومتی ناقدین کا یہ کہنا کہ فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، ان کی سوچ تو ہوسکتی ہے مگر فیصلہ آئین کی تشریح اور انصاف کی ڈیلیوری کا خوب صورت امتراج ہے۔ حکومتی ناقدین کو اس بات کا غم بھی کھائے جارہا ہے کہ ان کی سیٹیں کم ہوگئی ہیں اور جو حشر تمام ججوں نے الیکشن کمیشن کا کیا ہے، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ الیکشن کمیشن پبلک فنڈز کا ایک بڑا حصہ اپنے آپ پر خرچ کرتا ہے۔ بظاہر ایک غیر جانبدار ریاستی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مگر اس ادارہ نے ٹارگٹ کرکےPTIکو نقصان پہنچایا۔ الیکشن کے اردگرد یہ ادارہ صرف یہی سوچنے میں لگا رہا کہ اس جماعت کو طرح پاکستانی سیاست سے باہر کردیا جائے۔ تمام جج صاحبان نے کمیشن کی نااہلی کو ایکسپوز کیا ہے اور اس حد تک کہہ دیا گیا ہے کہ اس ادارے کی نااہلی کی وجہ یہ تمام مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ادارے میں بہتری لانے کیلئے سپریم کورٹ اور سیاسی جماعتوں سے مدد مانگے۔ موجودہ حالت میں اس ادارہ پہ منصفانہ انتخابات کروانے کیلئے اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ناقدین کا اس بات کا اسرار کہ پی ٹی آئی کو وہ کچھ مل گیا جو اس جماعت نے مانگا نہیں تھا قوم نے ملک کے اندر اور باہر سپریم کورٹ کی کارروائی سنی اور دیکھی۔ تمام معزز جج صاحبان نے اپنے دلائل میں ہر زاویہ سے معاملات کو زیر بحث لایا ہے۔ تب ہی کہیں جاکر اس فیصلہ کیلئے حالات بنے، جو ایک تاریخی فیصلہ ہے۔
یورپ سے سے مزید