• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی میں پاکستانی قونصل خانے پر حملہ، افغان شہریوں نے سبز ہلالی پرچم کی بے حرمتی بھی کی، دفتر خارجہ کا اظہار مذمت، سیاسی عناصر ملوث ہوئے تو عمران کان انہیں بچا سکیں گے، حکومت

کراچی (جنگ نیوز)جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل جنرل کے باہر افغان باشندوں نے ہنگامہ آرائی کی، پتھراؤ کیا اور پاکستانی پرچم بھی اتار دیا جس پر پاکستانی دفتر خارجہ اور سفارتی حکام نے واقعہ پر شدید احتجاج کیا ہے۔جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ واقعے میں سیاسی عناصر ملوث ہوئے تو عمران خان انہیں نہیں بچا سکیں گے۔ پاکستانی شہری کے ملوث ہونیکی شناخت جاری ہے ۔ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی ہوگی،شناختی کارڈ بلاک پاسپورٹ منسوخ کیا جائےگا۔ بنوں واقعے میں بھی پی ٹی آئی ملوث، ان کے خون میں تشدد کی سیاست ہے۔ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں افغان شہریوں کی جانب سے پاکستانی قونصل خانے پر پتھراؤ کیا گیا اور پاکستانی پرچم اتارنے کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا۔رپورٹ کے مطابق افغان باشندوں نے پاکستانی پرچم جلانے کی کوشش بھی کی، پاکستانی پرچم کی جگہ افغانی پرچم لہرایا گیا، پولیس نے کئی افراد کو حراست میں لے لیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق جرمن حکام نے سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا ہے جن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔پاکستان نے فرینکفرٹ جرمنی میں انتہاپسندگروہ کی جانب سے اپنے قونصل خانے پر حملےکی شدید مذمت کی۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان نے جرمنی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ویانا کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔دفترخارجہ نے کہا کہ فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالاگیا، واقعے سے قونصل عملے کی جان کو خطرہ لاحق ہوا۔ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ سفارتکاروں کی سلامتی یقینی بنانامیزبان حکومت کی ذمہ داری ہے، جرمن حکام ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کریں۔ پاکستانی سفارتی حکام نے افسوسناک واقعے پر جرمن وزارت خارجہ سے احتجاج کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سفارتی تنصیبات کی سیکورٹی کی ذمہ داری جرمن حکومت کی ہے، اس معاملے پر بین الاقوامی برادری میں بھی سفارتی تنصیبات کی سیکورٹی کے معاملے پر تشویش پائی جاتی ہے۔جرمن حکام نے پاکستانی سفارتی حکام کو مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔پاکستان نے فرینکفرٹ جرمنی میں انتہاپسندگروہ کی جانب سے اپنےقونصل خانے پرحملےکی شدید مذمت کی ہے۔جرمن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ویاناکنونشنز کے تحت ذمہ داریوں کو پورا کرے۔جرمنی میں پاکستانی سفارتخانہ نے فرینکفرٹ قونصل خانے میں توڑپھوڑ کی شدید مذمت کی ہے۔پاکستان سفارتخانہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ پاکستانی سفارت خانہ جرمن حکام سے رابطے میں ہے، اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایسی صورتحال دوبارہ نہ ہو۔بیان میں کہا گیا کہ شرپسندوں کو قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، پاکستانی سفارتخانہ نے اپنی کمیونٹی سے صبر اور سکون سے رہنےکی اپیل کی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا ہے کہ جرمنی میں پاکستانی قونصل خانے پر حملے میں ویڈیوز کی مدد سے کسی پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کی شناخت کی جارہی ہے، ان کا شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کیا جائے گا، ان کیخلاف سخت ترین کارروائی ہوگی، اس میں سیاسی عناصر ملوث ہوئے تو عمران خان انہیں نہیں بچا سکیں گے۔ بنوں امن مارچ واقعے میں بھی پی ٹی آئی ملوث ہے۔ تحریک انصاف کے خون میں تشدد کی سیاست ہے، یہ لوگ ہمیشہ لاشوں کی تلاش میں رہتے ہیں، اپنے ہی لوگوں کو مروا کر اس کا الزام سیکورٹی فورسز پر لگاتے ہیں، یہ سیاسی نہیں بلکہ دہشت گرد جماعت ہے۔آپ تحریک طالبان پاکستان تحریک انصاف (ٹی ٹی پی ٹی آئی ) ہیں۔ بنوں کینٹ پر حملے میں 8 جوان شہید ہوئے، ان کی کوشش تھی سویلینز کی ہلاکت کا الزام فوج پر لگوائیں، بنوں میں تاجروں کے امن مارچ میں تحریک انصاف کے لوگ شامل ہوئے اور کینٹ پر حملے کے جائے وقوعہ پر فائرنگ کی، ان کے مسلح افراد جتھوں کی شکل میں شامل ہوئے اور دنگا فساد کرانے کی کوشش کی، جس سے ایک شخص جاں بحق اور 22 زخمی ہوئے۔یہ واقعہ بھی اس دیوار سے ایک کلومیٹر دور پیش آیا۔اللّٰہ کا شکر ہے بڑے نقصان سے بچ گئے۔عمران خان کو کال کوٹھری میں رکھنے کی تردید، صدارتی سوئٹس میں رکھا گیا ہے۔وزیر اطلاعات نے عمران خان کو سزائے موت کے قیدیوں والی کال کوٹھری میں رکھنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کو اذیت ناک سیلز میں رکھا جاتا تھا، عمران خان کو اڈیالہ جیل میں صدارتی سوئٹس میں رکھا گیا ہے، انہیں ورزش کی سائیکل، کچن، واکنگ گیلری، پرتعیش کھانے کی سہولیات میسر ہیں۔انٹرنیٹ متاثر ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ متاثر ہے، اس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں، فائر وال کی تنصیب سے آزادی اظہار رائے کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سائبر اور ڈیٹا سیکورٹی کا معاملہ ہے۔ 

یورپ سے سے مزید