• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصطفےٰجاوید

اگر ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کا جائزہ لیں، اپنے تعلیمی نظام اور اس کے مقاصد و اہداف کا تجزیہ کریں تو جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مستقبل کے ان معماروں کی کوئی قدر ہی نہیں، ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینے کا کوئی اچھا انتظام کرنے کی کبھی کوئی مخلصانہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ 

قومی اہداف سے انہیں روشناس کرانا کبھی پیشِ نظر ہی نہیں رکھا گیا ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نئی نسل کو ہر وقت برا کہا جاتاہے، یہ بد تمیز ہیں گفتگو تک کرنا نہیں آتی، بڑے ، چھوٹے کا لحاظ تک نہیں ہے۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ نئی نسل نے کس کی انگلی پکڑ کے چلنا سیکھا، وہ کون سےحالات ہیں جس نے ان کو یہ انداز سکھائے۔ 

اگر نوجوان قصور وار ہیں تو ساتھ ہی ان کے سر پرست بھی قصور وار ہیں جو اپنے بچوں کی بہتر تربیت نہ کر سکے، ان کی صحیح رہنمائینہ کر سکے، ان کے سونے جاگنے اور آنے جانے پر نظر یں نہیں رکھ سکے ، ،بُرے دوستوں بری صحبت سے دور رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ان کو اپنے سے قریب کرنے کی سعی نہیں کی پھر جب وہ کچھ غلط کرتے ہیں تو اُن کو برا بھلا کہا جانے لگتا ہے۔ 

نہ صرف یہ بلکہ ن کا موازنہ کیا جاتا ہے ان عزیزوں کی اولاد سے جو باہر جاکر پیسہ کماتے اور اپنے والدین کو بھیجتے ہیں، ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ پیسے والے کی عزت ہے۔

ذرا سوچیں جب ایسی باتیں کی جائیں گی تو بچے نہ صرف احساس کمتری کا شکار ہوں گے بلکہ بیرونِ ملک جانے کی کوشش کریں گے ، خواہ ناجائز طریقے سے کریں اگر ایسا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو خودکشی کرتے ہیں یا جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں، ایسے میں ان سے بہتری کی کیا اُمیدکی جا سکتی ہے۔ 

آج کے بیشتر نوجوانوں کو اپنا روشن مستقبل یورپ میں نظر آتا ہے۔ اسی لیے وہ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ دوسرے ممالک نوجوانوں کو لاکھوں ڈالرز کی ا سکالرشپس دے کر اپنے ملک آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یقیناً وہ نوجوان انسانی وسائل کی وقعت سے بخوبی واقف ہیں۔

بے شک اس ملک میں نوجوانوں کی اکثریت ہے لیکن ان کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے، اب تو حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ وہ نوجوان جو یہاں رہتے ہوئے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو ان کو وسائل فراہم کرنے کے بجائے مسائل میں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے مستقبل کے لئے پریشان کیوں نہ ہوں، انہیں اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ ان کی اپنے ملک میں کوئی قدر و منزلت نہیں، صرف خواری ان کے نصیب میں لکھی ہے۔ 

اگر نوجوان اسی طرح سے ملک سے جاتے رہے توکیا ہوگا۔ بہتر یہی ہوگا کہ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں۔ ان کو برا کہنے سے پہلےاس حقیقت کا ادراک انتہا ئی ضروری ہے کہ اپنی غلطیوں ،کوتا ہیوں پر غور کریں، مستقبل کا لا ئحہ عمل طے کریں، اس کے لیے والدین، معاشرہ ، اداروں، ریاست سب ہی کواپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بنیاد کی پہلی اینٹ ہی درست نہ ہو تو ان پر تعمیر ہونے والی دیوار بھی ہر گزمضبوط نہیں ہو سکتی۔

ضرورت اس بات کی ہےان کی رہنمائی اور ان کے مسائل حل کیے جائیں، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ کچھ عرصے بعد ملک قابل نوجوانوں سے مکمل خالی ہوجائے، اس لیے سب مل کر اپنی اپنی ذمہ ادریوں کا احسا س کرتے ہو ئےنسلِ نو کے بہتر مستقبل کے لیے کو شاں ہو جا ئیں۔

حکومت اور سیاسی پارٹیاں لڑنے جھگڑنے کے بجائے اپنے ملک کی بہتری کے لئے کھڑی ہوں اور نوجوانوں کےمسائل کا حل تلاش کریں۔ ان کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ انہیں صحیح راستے پر گامزن کرنے کےلئے اپنا کردار ادا کریں، یہ نہ بھولیں کہ کسی بھی معاشرے کی کردار سازی کی ذمہ داری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر عائد ہوتی۔