• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈپارک … وجاہت علی خان
لندن میں میری رہائش سے کوئی 30 منٹ کی ڈرائیو پر 19ویں صدی کے فلسفی، سیاسی تھیورسٹ، ماہر اقتصادیات، مورخ، ماہر عمرانیات، صحافی اور انقلابی سوشلسٹ، دی کیمونسٹ مینی فیسٹو اور شہرہ آفاق تصنیف ’’داس کیپیٹل‘‘ کے مصنف کارل مارکس کی قبر موجود ہے۔ شمالی لندن کے علاقہ ہائی گیٹ کے 37 ایکڑ اور 53 ہزار قبروں پرمشتمل یہ قبرستان کوئی تین سو سال پرانی ہے، کارل مارکس کی اہلیہ جینی اور خاندان کے دیگر افراد بھی اس قبرستان میں دفن ہیں ، مارکس کی اس قبر کے پہلو میں برینٹ بلکہ پورے برطانیہ میں پہلے مسلمان میئر کرامت حسین کی قبر بھی موجود ہے لیکن جہاں مارکس کو پہلی بار دفن کیا گیا تھا یہ وہ جگہ نہیں ہے کیونکہ 1954 میں مارکس کے پوتے کے ساتھ ’’کارل مارکس میموریل کمیٹی‘‘ نے ایک ایگریمنٹ کیا کہ مارکس کے شایان شان اس کا مقبرہ بنایا جائے اور پھر اس کی میت اسی قبرستان کے ایک قدرے ویران حصے سے نکال کر اس مقام پر دفن کی گئی اس مقبرے کے اوپر جو لفظ لکھے ہوئے ہیں وہ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے آخری لفظ Worker of all land unit ہیں۔ مارکس نے اُس وقت کے رائج سرمایہ داری نظام سے بغاوت کی اور اشتراکی فلسفے کی بنیاد رکھی جو آج بھی مغربی معاشروں کی جمہوریت اور معیشت کی بنیادی اساس ہے۔ یوں تو ہائی گیٹ کے اس قبرستان کی وجۂ شہرت کارل مارکس کی قبر ہی ہے لیکن یہاں معروف برطانوی نغمہ لگار، گلو کار، قلمکار جارج مائیکل، صحافی، ناول نگار، شاعر جارج ایلیٹ، مصنف اور سکریپ رائٹر ڈگلس ایڈمز اور مشہور ڈرافٹسمین لوسئین فرائیڈ بھی مدفن ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مارکس نے اپنی زندگی میں اس قبرستان میں قبر کے لئے 6 پاؤنڈ کی جگہ خریدی تھی جہاں آج 5 ہزار پاؤنڈ میں ایک قبر کی جگہ ملتی ہے لیکن اگر کسی بھی شخص نے مارکس کے پہلو میں دفن ہونا ہو تو اُسے 25000 پاؤنڈ خرچ کرنا ہوں گے ، آج سے کوئی دس سال پہلے تک مارکس کی قبر پر جانے کے لئے کوئی ٹکٹ نہیں تھی لیکن آج 6 پاؤنڈ کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے حالانکہ قبرستان کے اندر جانے کی کوئی فیس نہیں ہے مارکس کے بہت سے مداح اس بات پر ناراض ہیں کہ مارکس جیسی عظیم شخصیت کی قبر پر جانے کے لئے فیس رکھی جائے اور ایسا کرنا مارکس کے فلسفے کی روح کے بھی خلاف ہے لیکن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیس کی رقم سے قبر کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اشرکیت پر مبنی کارل مارکس کے بنیادی فلسفہ سے تو ہر اہل علم و قلم واقف ہے کہ کس طرح مارکس اپنے وطن جرمنی سے نکلا اور پھر پیرس ، بلجیم سے نکالے جانے کے بعد 33 سال اپنے انتقال تک لندن میں رہا اور پھر کس طرح مارکسزم نے دُنیا بھر میں رائج سرمایہ داری یا بورژوائی نظام کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھورے بہت “اگر مگر” کے ساتھ مارکس ازم ہی دراصل آج مغربی معاشروں کے نظام معیشت و سیاست کی اساس ہے جس پر مغربی ممالک انسان دوست معاشرے ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ بورژوازی، کسی بھی سماج میں موجود ایک مخصوص طبقہ کا نام ہےعرف عام میں اسے سرمایہ دار طبقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ سرمائے کی بدولت مزدور طبقہ (پرولتاریہ) کا استحصال کرتا ہے۔ یہ لفظ فرانسیسی زبان سے لیا گیا ہے لیکن اب سماجیات اور معاشیات کی کتب میں متواتر استعمال ہونے کے باعث اردو لغت کا بھی حصہ بن چکا ہے۔ تاریخی طور پر قرون وسطی میں یورپ میں تاجر اور دولت مند طبقے کو اصطلاحا بورژوازی کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں بڑی بڑی زمینیں خریدنے کے بعد یہ طبقہ لین دین سے بڑھ کر براہ راست سرمائے کی پیداوار کرنے لگا۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان یا کہہ لیں کہ برصغیر بھی مارکسزم کے فلسفہ کے حامیوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی تعلیمی اداروں میں، پڑھے لکھے حلقوں میں اور زرائع ابلاغ کے دفاتر میں لوگ دو حلقوں یا گروہوں رائٹ ، لیفٹ میں بٹے ہوئے تھا میرا بھی یہ زمانۂ طالبعلمی تھا یہاں وہاں ہمہ وقت لینن ، مارکس اور اینگلز کا نام اور کبھی کبھار کہیں بلیک اینڈ وائٹ تصویریں دیکھنے کو مل جاتیں، لاہور کی جناح پبلک لائبریری اور پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں کارک مارکس ، لینن اور ٹراٹسکی کی فلاسفی یا ان کے بالشویک انقلاب سے متعلق کتابوں کی تلاش میں جایا کرتے اُنہی دنوں کہیں پڑھا کہ کارل مارکس کی قبر لندن میں ہے، 90 کی دھائی میں لندن آئے تو ہر وقت سوچتے کسی وقت اس قبر پر جا کر خراج عقیدت پیش کریں گے لیکن امتِدادِ زمانَہ اور لندن کی سٹیریو ٹائپ لائف نے اس سوچ و خیال میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں 32 سال لگا دئیے ، پچھلے ہفتے لندن کے ایک صحافی دوست مشتاق مشرقی اور میں ہائی گیٹ کے قبرستان جا پہنے یہاں کارل مارکس کی قبر پر بنایا گیا مجسمہ بھی دیکھا اور ارد گرد افغانستان اور برصغیر کی کئی ایک شخصیات کی قبور بھی دیکھیں جنہیں اُن کی وصیت کے مطابق مارکس کی قبر کے اطراف دفن کیا گیا تھا۔ مارکس کی قبر پر خاضری میں اور اس خیال کا بوجھ اُتارنے میں مجھے تو 32 سال کا طویل عرصہ لگا حالانکہ میں آدھ گھنٹے میں وہاں جا سکتا تھا لیکن یہ جان کر قدرے اطمینان بھی ہوا کہ مشتاق مشرقی کو لندن میں رہتے ہوئے 50 سال ہو چکے لیکن مارکسسٹ ہوتے ہوئے بھی اُنہوں نے پہلی بار مارکس کی قبر پر حاضری لگوائی اور50 سال کی سوچ کا بوجھ اُتارا ۔
یورپ سے سے مزید