• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم فرمائے۔ ہم ایک ایسے دور ستم سے گزر رہے ہیں جب تاریخی سچائیوں میں ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ کا رنگ ملایا جارہا ہے۔ عالم اور جاہل کا فرق ختم ہورہا ہے ۔دوست اور دشمن کی سمجھ نہیں آرہی۔ سیاست میں کرپشن اور مبالغہ آرائی پر تنقید کریں تو صحافیوں کو غیر ذمہ دار کہا جاتا ہے اور جمہوریت دشمن عناصر کی فہرست میں شامل کردیا جاتا ہے۔ سیاست میں فوج کے کردار کی مخالفت پر غداری کے الزامات سننے پڑتے ہیں۔ خفیہ اداروں کی قانون شکنی پر سوال اٹھایا جائے تو بھارتی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کو ملکی مفاد کے منافی قرار دینے والوں سے بحث کی جائے تو دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے دھمکی دی جاتی ہے لیکن اگر آپ اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قائد اعظمؒ محمد علی جناح اور علامہ اقبالؒ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں تو روشن خیالی کے سرٹیفکیٹ ملتے ہیں۔ بہت سے مغربی اور بھارتی مصنفین قائد اعظمؒ کی سیاست کے ابتدائی دور کو بنیاد بنا کر ان کے اسلام اور پاکستان کے رشتے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرچکے ہیں۔ یہی کچھ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے ساتھ بھی ہوا لیکن افسوس کہ ہمارے کچھ دانشور مغربی و بھارتی مصنفین کی تعصب اور بددیانتی پر مبنی تحریروں کو تاریخی حقائق کے طور پر پیش کرکے یہ رونا روتے ہیں کہ نصابی کتب میں اصل تاریخ نہیں پڑھائی جارہی ۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی جناب ایاز امیر نے روزنامہ جنگ میں 29 مارچ کو شائع ہونے والے کالم میں علامہ اقبالؒ پر ایک بے بنیادالزام لگا دیا ہے۔ فرماتے ہیں غریبوں کی حمایت اور درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنے کے دعویدار اقبالؒ کی شاعری 1919ء میں جلیانوالہ باغ کے سانحے پر خاموش نظر آتی ہے۔ موصوف نے علامہ اقبالؒ کو بالواسطہ طور پر ’’کج فہم‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ شاعر مشرق نے اپنے کلام میں مرد مومن کی بات تو کی لیکن انہوں نے انگریزوں سے سرکا خطاب قبول کیا اور پھر یہ دعویٰ بھی کردیا کہ برطانوی راج نے مسلم لیگ کو کانگریس کے خلاف استعمال کیا۔ جناب ایاز امیر نے 1930ء میں علامہ اقبال ؒ کے خطبہ الہٰ آباد پر بھی تنقید کی اور انہیں صرف ہندوستان نہیں بلکہ پنجاب کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے آج کے پاکستان کے تمام مسائل بھی علامہ اقبال ؒ کے کھاتے میں ڈال دئیے۔
جناب ایاز امیر کچھ عرصے سے پرویز مشرف کا دفاع کررہے تھے۔ مشرف کا دفاع کرتے کرتے اچانک علامہ اقبالؒ پر حملہ آور ہوگئے۔ کوئی علمی اختلاف کرتے تو خوشی ہوتی لیکن افسوس کہ انہوں نے اقبالؒ کے ساتھ وہی کیا جو سٹینلے والپرٹ نے قائد اعظم کے ساتھ کیا۔ ایک مخصوص دور میں قائد اعظم ؒ ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے۔ اس دور میں اقبالؒ نے قائد اعظمؒ کے ساتھ اختلاف کیا بعد ا زاں قائد اعظمؒ نے کانگریس سے مایوس ہو کر پاکستان کا مطالبہ کردیا لیکن سٹینلے والپرٹ کی تحقیق کا مرکز و محور 1937ء سے پہلے کا محمد علی جناح رہا۔ اس نے 1937ء کے بعد پیدا ہونے والے قائد اعظمؒ کو نظر انداز کردیا۔ ایاز امیر نے بھی 1930ء سے پہلے کے سر محمد اقبال کی ذات میں سے کیڑے نکالے ہیں۔ 1930ء کے بعد تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبالؒ کو نظر انداز کردیا۔ علامہ اقبالؒ پر یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے کہ وہ سانحہ جلیانوالہ باغ پر خاموش رہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنی کتاب’’علامہ اقبالؒ شخصیت اور فن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اقبالؒ کو اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت تھی۔ 9 نومبر 1914ء کو والدہ کی وفات نے انہیں پریشان اور اداس کردیا۔ انہوں نے دنیاوی معاملات میں دلچسپی بہت کم کردی۔ ایک دفعہ مولانا محمد علی جوہر نے اقبالؒ سے کہا ظالم! ہم تو تمہارے شعر پڑھ پڑھ کر جیل جاتے ہیں لیکن تم حقے کے کش لگاتے رہتے ہو۔ اقبالؒ نے برجستہ جواب دیا کہ میں تو قوم کا قوال ہوں اور قوال خود و جد و حال میں شامل نہیں ہوتا ورنہ قوالی ختم ہوجائے گی۔یہ بات انہوں نے ازراہ تفنن کہی تھی۔حقیقت یہ تھی کہ وہ بانگ درا کی اشاعت کے بعد اسرار خودی اور پھر رموز بے خودی کی ترتیب میں مصروف رہے لیکن جب موقع ملا جلسے جلوسوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ 13 اپریل1919ء کو امرتسر میں سیتہ پال اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی گرفتاری کے خلاف اکٹھے ہونے و الوں پر فائرنگ کے خلاف اقبالؒ خاموش نہیں رہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والد کی سوانح عمری’’زندہ رود‘‘ کے صفحہ 302 پر بتایا ہے کہ سانحہ جلیانوالہ باغ پر اقبالؒ نے یہ اشعار کہے؎
ہر زائر چمن سے یہ کہتی ہے خاک پاک
غافل نہ رہ جہاں میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خون شہیداں سے، اس کا تخم
تو آنسوئوں کا بخل نہ کر اس نہال سے
30 نومبر 1919 ء کو باغ بیرون موچی گیٹ لاہور میں ایک جلسہ ہوا جہاں تقریر کرتے ہوئے اقبالؒ نے کہا ہم کیوں کسی بندے کے سامنے شکایت کریں، ہمیں خدا کے سامنے شکایت کرنی چاہئے۔ خوشامد اور منت سماجت سے کبھی کچھ نہیں ملتا خدا کے سوا کسی اور کی اطاعت ہمارے لئے واجب نہیں۔ علامہ اقبالؒ کو سرکا خطاب 1923ء میں ملا۔ یہ خطاب ملنے سے پہلے اور بعد میں وہ مسلسل برطانوی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے۔ اس خطاب کا تعلق سیاست سے نہیں تھا۔ اس خطاب پر مولانا محمد علی جوہر ،عبدالمجید سالک اور مولانا ظفر علی خان نے بھی تنقید کی لیکن جب پتہ چلا کہ ’’اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے کے باعث سر کا خطاب دیا گیا اور اقبالؒ نے کافی تردد سے یہ خطاب قبول کیا اور اس سے قبل وہ کئی سرکاری عہدے بھی ٹھکرا چکے تھے تو بات ختم ہوگئی۔ جن اصحاب نے سر کا خطاب قبول کرنے پر اقبالؒ کو ہدف تنقید بنایا انہی اصحاب کے اصرار پر 1926ء میں اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑنے پر آمادگی ظاہر کی۔ علامہ اقبالؒ کی انتخابی مہم چلانے والوں میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو پیش پیش تھے۔ عبدالمجید سالک، مولانا ظفر علی خان اور حفیظ جالندھری صبح و شام اقبالؒ کے ساتھ ہوتے لیکن انتخابی مہم میں اقبالؒ کے مدمقابل ملک محمد دین نے ہندو پریس کے ساتھ مل کر شاعر مشرق کی ذات پر کئی رکیک حملے کئے۔ اس انتخابی مہم میں علامہ اقبالؒ پر ایک طوائف کے قتل، شراب نوشی اور مذہبی انتہا پسندی پھیلانے کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ اس الیکشن کو ارائیوں اور کشمیریوں کی لڑائی بنانےکی کوشش بھی ہوئی لیکن پڑھے لکھے ارائیوں نے علامہ اقبالؒ کو ووٹ دئیے اور ملک محمد دین کو شکست ہوئی۔ پنجاب اسمبلی کا رکن بننے کے بعد اقبالؒ نے سیاست کو قریب سے دیکھا اور آخر کار 1930ء میں انہوںنے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا تصور پیش کیا۔ 1930ء کے خطبہ الہٰ آباد کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو اور ایڈورڈ تھامسن نے اقبالؒ کے خلاف بہت زہر اگلا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں کے کے عزیز نے بھی اقبالؒ پر وہی اعتراضات کئے جو ایک بھارتی مصنف اقبال سنگھ نے اپنی کتابTHE ARDIENT PILGRIM میں کئے۔پھر تارا چند رستوگی نے اقبال سنگھ کی کتاب کی بنیاد پر اقبالؒ کے معاشقوں کی کہانیاں لکھیں لیکن پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے ’’اقبالؒ کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے نام سے کتاب میں سب الزامات کا ٹھوس حقائق کی مدد سے جواب دے ڈالا۔ ایاز امیر ایک نیا نکتہ یہ لائے ہیں کہ اقبالؒ نے بھگت سنگھ کی حمایت کیوں نہ کی۔ بھگت سنگھ متحدہ ہندوستان کی آزادی چاہتا تھا۔ اقبالؒ ہندوستان کی تقسیم چاہتے تھے۔ بھگت سنگھ نے بم دھماکے کئے۔ اقبالؒ کو بھگت سنگھ کے سیاسی نظریات سے ا تفاق نہ تھا اگر بھگت سنگھ کے بم دھماکے ٹھیک تھے تو پھر بھارتی فوج کے خلاف کشمیری مجاہدین اور امریکی فوج کے خلاف افغان طالبان کے بم دھماکے غلط کیوں؟ کالم کا دامن تنگ ہے۔ اقبالؒ کا مرد مومن بے تیغ لڑتا اور آتش نمرود میں کودتا ہے۔ اقبال سے نفرت کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ عاشق رسول ؐتھے۔ وہ اجتہاد کے حامی تھے لیکن جب انگریزوں نے اپنے زرخرید علماء کے ذریعہ برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کی مخالفت کی تو انگریزوں سے سر کا خطاب پانے والے اقبالؒ نے کہا؎
تعلیم اس کو چاہئے ترک جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجہ خونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!
تازہ ترین