• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی کمپنی بنالی، اب سندھ حکومت خود بجلی ٹیرف مقرر کریگی، مراد شاہ

کراچی ( اسٹاف رپورٹر)وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے نے کہاہے کہ ہم عوام کا پیسہ عوام پر لگا کر ان کی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں،سندھ نے بجلی کی اپنی کمپنی بنالی ہے، اب سندھ حکومت خود ٹیرف مقرر کرے گی۔ صنعتوں کو بچانے اور اضافی بجلی کھپانےکیلے بڑی تجویز دے دی۔ کہا کہ فیکٹریوں کو ایک شفٹ کیلیے سستی بجلی دی جائے۔ تھر کے کوئلے سے پورے ملک کیلئے سستی بجلی پیدا کرسکتے ہیں،ان خیالات کا اظہار انھوں نے لاہور کے صحافیوں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن، سیکریٹری اطلاعات ندیم میمن بھی موجود تھے،مراد علی شاہ نے کہا کہ اس وقت ہم تین ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جو سندھ استعمال نہیں کر رہا، سیدھا فیصل آباد کو جاتی ہے۔ ہم نے قومی مفاد کے منصوبوں پر پیسا لگایا ہے، چاہتے تو اپنے ہاں ایک چمکیلا منصوبہ بنا دیتے اور اس پر سیاست کرتے لیکن ہم پورے ملک کا سوچتے ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ایک طرف ہم چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں لیکن ہماری ضرورت 30 ہزار میگاواٹ ہے۔ میری تجویز ہے کہ جو فیکٹریاں اآٹھ گھنٹے کی ایک شفٹ لا رہی ہیں ، ان کو دوسری چلانے کی ہدایت کی جائے اور دوسری شفٹ کیلئے بجلی کم نرخوں پر فراہم کی جائے۔ ہم بجلی کو سستا کرینگے تو ڈیمانڈ بڑھے گی۔ اس وقت بھی تھر سے 3ہزار میگاواٹ بجلی بنا رہے ہیں جو نیشنل گرڈ میں شامل ہو کرسیدھا فیصل آباد جاتی ہے۔ وہ بجلی سندھ استعمال نہیں کررہا۔ ہم اپنی پیدا کردہ گیس بھی استعمال نہیں کر رہے، وزیراعلی سندھ نے پیشنگوئی کی کہ 40سال بعد تھر کراچی سے بڑا شہر ہوگا۔ کراچی اور لاہور کے موازنے پر وزیراعلی سندھ نے کہا کہ دونوں شہروں کے ڈیزائن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لاہور میں کراچی سے چھ فیصد زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا ڈیزائن ایسا ہے۔ کراچی کے ڈیزائن کے مطابق پچیس ملی میٹر بارش معمول کی ہے۔ لاہور کا اگر کراچی سے موازنہ کریں گے تو لاہور میں ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش ضروری ہے۔ مراد علی شاہ نے بار بار سیلابوں کی وجہ بھی بتادی۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ تاریخی طور پر سرسبز اور شاداب تھا، دریاں پر بند نہیں تھے، سندھ میں قدرتی نکاسی آب کے راستے تھے، سب سے پہلے بیراج بنے جس سے پانی روکا گیا، سنہ 1868 میں پہلا بیراج تعمیر ہوا، اس وقت جو نارا کینال ہے وہ اصل میں کی قدرتی گذرگاہ تھا۔ سکھر بیراج بنا تو نارا کینال ہوگیا، یہ جو پانی کے بہا کی روکتھام ہوئی وہ بھی موسمیاتی تبدیلی کا سبب ہے۔ ایل بی او ڈی کو بنا کر پانی کی تمام قدرتی گزرگاہیں بند کردی گئیں۔ سیلاب میں ایل بی او ڈی کو 17شگاف پڑے تھے۔ انگریزوں نے ریلوے لائن بچھائی تو ساتھ میں دودو سو فٹ کے پل بھی بنائے لیکن ہم نے اس کے ساتھ سڑک بنادی تو پانی کدھر جائے۔ ہم نے پانی کی قدرتی گذر گاہیں بند کردی ہیں۔ قدرت کیساتھ چھیڑ چھاڑ کریں گے تو وہ سزا ضرور دے دی۔ اب ہم آبی گذر گاہیں بحال کر رہے ہیں۔
اہم خبریں سے مزید