عبدالرشید طلحہ
نیند کا ذکر قرآن مجید میں: نیند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے،جسے قرآن مجید میں احسان و امتنان کے طور پر ذکر کیا گیاہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمھارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو(غور سے) سنتے ہیں‘‘ (سورۃالروم) اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا:’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمھارے لیے رات اور دن کو بنایا، تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔(سورۃالقصص)
پُرسکون نیند کی بنیادی ضرورت اندھیرا اور شور شرابہ کانہ ہونا ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے رات کو تاریک بنا کر پرسکون نیند کی ان فطری ضرورتوں کو پورا کردیاہے،جیساکہ ارشادربانی ہے:’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پردہ پوش اور نیند کو راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا‘‘(سورۃالفرقان) دوسرے مقام پر یوں فرمایا:’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن کیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘۔(سورۃالمؤمن)
نیند کا ذکر احادیث مبارکہ میں: نبی پاک ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں متعدد مواقع پررات میں آرام کرنے کی اہمیت و ضرورت کو اُجاگر فرمایاہے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺکے صحابہ کی ایک جماعت میں سے بعض نے کہا: ’میں نکاح (شادی بیاہ) نہیں کروں گا‘۔ بعض نے کہا: ’میں گوشت نہ کھاؤں گا‘۔ بعض نے کہا: ’میں رات میں نہ سوؤں گا‘۔ بعض نے کہا: ’میں مسلسل روزے رکھوں گا، نہ کھاؤں گا نہ پیوں گا۔
یہ خبر رسولﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ (مجھے دیکھو) میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، اور شادیاں بھی کرتا ہوں۔ (سن لو) جو شخص میری سنت سے اعراض کرے (میرے طریقے پر نہ چلے) سمجھ لو وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب النکاح)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رات کا ایک حصہ آرام و سکون حاصل کرنے کے لیے ہے، اس میں آرام کرنا ہی شریعت کا تقاضا ہے۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرمﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو، اور پھر دن میں بھی روزے رکھتے ہو؟‘‘میں نے کہا: جی ہاں، میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا کروگے تو تمھاری آنکھیں بیٹھ جائیں گی اور تمھاری صحت کمزور پڑے گی۔جان لو کہ تم پر تمھارے نفس کا بھی حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔کبھی روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو۔
قیام بھی کرو اور سوؤ بھی‘‘(بخاری، کتاب الادب)اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بخشش و کرم کی انتہا دیکھیے کہ اپنے محبوب رسولﷺ کےفرمان کی برکت سے ہماری نیند کو بھی عبادت بنا دیا ہے، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:’’جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا۔ جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا‘‘ (مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ) بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپﷺ کی صحیح اتباع کرتے ہوئے عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کریں۔
نیند اور مسلم معاشرہ: نیند کی اس راحت بخش نعمت کا اسلام نے بہت خیال رکھا ہے اور اس کے لیے مختلف آداب و احکام بیان کیے گئے ہیں جو صحت بخش نیند اور پرسکون زندگی کا سبب ہیں۔ چنانچہ رات کو عشاء کے بعد جلدی سونا‘ تہجد میں اٹھنا‘ نماز فجر سے پہلے تھوڑا آرام کر لینا اور پھر نماز فجر ادا کرنا، اشراق تک ذکر اذکار میں مگن رہنا اور اشراق کی نفل نماز کے بعد دن کے کام کاج میں مشغول ہوجانا نبی کریمﷺ کا یہی معمول تھا۔ اسی سنت کو صحابہ کرام ؓ نے اپنایا اور امت مسلمہ صدیوں اس سنت پر کاربند رہی ہے، کیونکہ آپ ﷺ ’’عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ)
ڈاکٹر حمزۃ الحمزاوی کے مطابق: عشاء کے بعد ۹سے ۱۲ بجے کے درمیان سونا سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ ایک انسان اپنی نیند کا ۸۰ فی صد حصہ ان ہی اوقات میں پورا کر سکتا ہے، کیونکہ ان اوقات میں نیند کے لیے خاص برکت رکھی گئی ہے، سو اس وقت کی صرف ایک گھنٹے کی نیند تین گھنٹے کی نیند کے برابر ہے۔
پھر رات ۱۲ سے ۲ بجے کے درمیان سونے سے انسان کی ۲۰ فی صد گہری نیند پوری ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کا سونا انسان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں۔۲ بجے سے ۵ بجے تک یعنی فجر سے پہلے کے اوقات کچھ یاد کرنے، مطالعہ کرنے اور دیگر دماغی کاموں کے لیے نہایت مفید ہیں۔۵ بجے سے طلوع آفتاب کے بعد تک سونا بالکل بھی فائدہ مند نہیں۔اس وقت سونے میں کوئی برکت نہیں، بلکہ یہ سارا دن کاہلی وسُستی اور توجہ میں کمی کا باعث ہے۔
نیند وہ ارزاں نعمت ہے، جسے ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں اور ہمیں اس پر شکر گزاری کی توفیق بھی نہیں ملتی، بلکہ بسا اوقات ہم اپنی بے حسی اور عدم التفات کے سبب اس کی اہمیت و افادیت کو محسوس نہیں کرتے۔در حقیقت وہی لوگ اس نعمت کے حقیقی قدر شناس ہوتے ہیں،جو خدا کی طرف سے کسی تکلیف میں مبتلا ہوں یا مسلسل جاگنے کی بیماری سے دوچار۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے صحت و غذا کے حوالے سے اپنی بے اعتدالی اور وقت کے عدم انضباط کی بناء پر نیند جیسی انمول و گراں قدر نعمت کو مصیبت بنا رکھا ہے۔ بڑے شہروں کا حال یہ ہے کہ مسلمان رات رات بھر جاگنے اور آدھا آدھا دن سونے میں گزاردیتے ہیں، جب کہ نبی پاکﷺ نے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت کی دعا دی ہے۔ (ترمذی)اور ایک روایت میں تو صبح کے سونے کو رزق کے لیے مانع قرار دیاہے۔