• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قاری محمد قاسم

امام الانبیاء، سیّدالمرسلین،خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت باسعادت سے وصال تک، بچپن ، جوانی اور آپﷺ کا بڑھا پا، آپ ﷺکے اقوال وافعال ،آپ ﷺکی عبادت، آپ ﷺکی معاشرت، آپ ﷺکے عقائد، آپﷺ کے اخلاق، آپ ﷺکا رہن سہن، غرض یہ کہ زندگی کے ہر مو ڑ اور ہر گوشے کا نام سیرت ہے۔ عقل و فہم اور دینی شعور رکھنے والے کسی بھی مسلمان پر یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ انسانی زندگی کے لیے نبی کریم ﷺ کی عالی ذات اور اسوۂ حسنہ میں بہترین نمو نہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ کے رسولﷺ (کی ذات پاک اور سیرت طیبہ )میں تمہارے لیے بہترین نمو نہ ہے ‘‘۔(سورۃ الاحزاب) 

نیز امتِ مسلمہ کے لیے آپ ﷺکی بے پایاں شفقت ومہر بانی اور مسلمانوں کی خیرو فلاح کے لیے تڑپ اور جہد مسلسل کے روشن اسباق قرآن وحدیث جا بجا بیان ہوئے ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ: تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول تشریف لائے ہیں، ان پر تمہاری تکلیف گراں گزرتی ہے او روہ تمہاری بھلائی کے حریص ہیں اور ایمان والوں پر نہایت شفیق و مہر بان ہیں۔ (سورۃالتوبہ )

حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ آیت تلاوت فرمائی کہ میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سے لو گوں کو گمراہ کر دیا یعنی ان کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہ ہو گئے، پس جو لوگ میری پیروی کریں،وہی میرے ہیں، پس ا ن کے لیے تو میں آپ سے عرض کر تا ہوں کہ انہیں تو بخش دیجیے ۔(صحیح مسلم)

یہ آیت بھی تلاوت فرمائی :ترجمہ: اے اللہ ،اگر آپ میری امت کے ان لوگوں کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں ( یعنی آپ کو عذاب و سزا کا پورا حق ہے) پھر آپﷺ نے دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور کہا اے میرے پروردگار !میری امت، میری امت ، اور آپﷺ اس دعا میں روئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو فر مایا کہ محمدﷺ کے پاس جاؤ، اگر چہ تمہارا رب سب خوب جانتا ہے، مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پو چھو کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے ؟ 

پس جبرائیلؑ آپﷺ کے پاس آ ئے اور آپﷺ سے پو چھا ،آپﷺ نے جبرائیل ؑ کو وہ بتایا جو اللہ سے عرض کیا تھا یعنی اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے۔ حضرت جبرائیل ؑنے اللہ تعالیٰ سے عر ض کیا تو اللہ تعالیٰ نے جبرائیلؑ سے فرمایا کہ محمدﷺ کے پاس جاوٴ اور انہیں ہماری طرف سے کہو کہ تمہاری امت کے بارے میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گے ، اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے ۔

ایک مو قع پر آپﷺ نے فرمایا : اَللّٰھُمَّ اْغْفِرْلِعَائشَةَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِھَا وَمَا اَسَرَّتْ وَمَا اَعْلَنَتْ۔ یہ دعاسن کرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہایہاں تک ہنسیں کہ ان کا سر آپ ﷺ کی جانب جھک گیا تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں میری دعا نے خوش کر دیا، عرض کیا ، آپﷺ کی دعاکیوں خوش نہ کرتی۔ آپﷺ نے فرمایا: یہی میری دعا میری تمام امت کے لیے ہر نماز کے بعد ہو تی ہے ۔ (مجمع الزوائد )

یہ امت کے فکر وغم اور خیر خواہی کے جذبات سے معمور پیغمبرانہ مزاج تھاجو ہمہ وقت آپ ﷺکو مضطرب و بے چین رکھتا ، اور یہ سلسلہٴ شفقت و مہربانی صرف دنیا کی فانی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ محشر کے میدان میں بھی، جب ہر انسان ہی نہیں، بلکہ ہر نبی نفسی نفسی کے عالم میں ہو گا، کرب و ابتلاء کے عین مو قع پر بھی زبانِ رسالت مآبﷺ پر ”امتی امتی“ جاری ہو گا ، اور آپﷺ دیگر انسانوں کے ساتھ ساتھ اپنی امت کے حق میں خصوصی شفاعت فرمائیں گے۔

پیارے نبیﷺ کو امت سے اس قدر محبت و پیار کا تعلق اورہم مسلمانوں کا سنتِ نبویؐ سے اعراض یقیناًیہ انتہائی تشویشناک اور تکلیف دہ عمل ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، جس نبی ﷺکو اُسوہ ٔ حسنہ بنا کر مبعوث کیا گیا، اس نبیِ رحمت ﷺنے زندگی کے کسی بھی گو شے کو تشنہ نہیں چھوڑا، بلکہ کامل و مکمل طریقے سے تمام شعبوں میں زبانی عملی ہر طرح سے اور ہر سطح سے رہبری فرمائی۔

خواہ ان اُمور کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات سے یا معاشرت واخلاقیات سے، زندگی کا ہر مر حلہ اس آفتابِ نبوت کی پاکیزہ و مقدس روشنی سے منور اور روشن ہے، ہماری سب سے بڑی کو تاہی یہ ہے کہ ہم بے عملی کا شکار ہیں، دنیا کی حرص و طمع کے دبیز پر دوں نے ہمیں پوری طرح سے ڈھانپ رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ منزل کی صحیح سَمت معلوم ہو نے کے باوجود ہم اس پر چلنے سے عاجز و قاصر رہتے ہیں، شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ خود کریں، اپنی عبادتوں کا جائزہ لیں ،ہماری نمازیں پیغمبر ﷺکی نماز سے میل کھاتی ہیں یانہیں؟ زکوٰۃ اور رمضان شریف کے روزوں، حج بیت اللہ اور دیگر عبادات میں ہم اپنے پیارے نبیﷺ کے طریقے کو کتنا ملحوظ رکھتے ہیں۔ 

اسی طرح معاملات کو دیکھیں کہ اس میں ہم کس حد تک پیغمبرانہ اسوہ کو اختیار کیے ہوئے ہیں ، یاغیروں کے بنائے ہوئے اُصول اور ان کے بے برکت طریقے اختیار کر تے ہیں، معاملات کی صفائی و شفافیت کے متعلق نبیِ رحمتﷺ کی تعلیمات و ہدایات پر ہمیں کتنا اعتماد ہے، اخلاق و معاشرت کے پہلو سے بھی ہم اپنے طر زِ عمل پر نظر ڈالیں ، اخلاق نبویﷺ سے ہماری خصلتیں اور مزاج کتنا متاثر ہے ۔

حرص و طمع، کینہ و حسد، حبِ جاہ ، حبِ مال، عجب وریا، کذب وخیانت ، غرور و گھمنڈ ، غصہ اور بخل جیسی عادتوں سے ہم عملی طور پر کتنی نفرت کر تے ہیں اور اخلاقِ عالیہ تواضع و انکساری توبہ واستغفار ، انس و محبت، زہد و توکل ،صبرو شکر، حلم و بر دباری ، صدق و اخلاص، احسان و رضا، شرم وحیا ، ہمدردی و رحم دلی، جیسے بلند اوصاف سے ہماری طبیعت کتنی مانوس ہے اور قت آ نے پر ان دو راہوں میں سے ہم کس راہ کو اختیار کر تے ہیں۔ 

اسی طرح اپنی معاشرتی زندگی کا بھی جائزہ لیں اور بہت سنجیدگی سے محاسبہ کریں کہ قبیلہ و خاندان اعزاء و اقرباء پڑوسیوں اور دیگر لو گوں کے ساتھ رہن سہن اور گزر بسر کے سب طریقے ہمارے اچھے ہیں ؟ اپنی بستی و محلہ اور گھروں میں محبت و موانست کی فضا ہے ، یا نفرت و بیز اری کا ماحول ہے؟ خوش مزاجی ، بڑوں کی عزت و عظمت ، چھو ٹوں کے ساتھ شفقت و محبت ، ماتحتوں کے ساتھ حسنِ سلوک وروا داری ، لوگو ں کی خطا و لغزش معاف کر نا کمزوروں کی مدد کر نا مہمانوں کی ضیافت، بھوکوں کو کھانا کھلانا ،مظلو موں کی مدد اور ہر شخص کے ساتھ محبت و شفقت کا معاملہ کر نے میں ہماری زندگی کا کتنا حصہ گزرا کہ جس کی بنیاد پر معاشرےمیں آدمی ایک محترم اور بلند کر دار انسان کہلانے کا حق دار ہو جاتا ہے ، یہ بلند کر داری غیروں میں بھی اسے باعزت مقام دیتی ہے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ ہم اپنا بھی محاسبہ کریں اور اپنے اہل وعیال کا بھی جائزہ لیں، آج ہمارے بچوں کو بے مقصد باتیں خوب یاد رہتی ہیں۔اگر یاد نہیں تو پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات اور ان کی سیرت یا دنہیں ، ا س میں یقیناً بنیادی طور پر قصور ہمارا ہے۔

ہمیں خود سیرتِ طیبہ کا پتا نہیں، اس سے یکسر غفلت ہے، نبی پاکﷺ کی پاکیزہ زندگی کے نہ تو احوال ہمیں یاد ہیں اور نہ جاننے کی فکر ہے، البتہ زبانی محبت کا دعویٰ خوب ہو تا ہے۔ سرورِ کونینﷺ کی شان میں نعوذ باللہ کوئی خبیث النفس شرارت کر دے تو ہمارا خون کھولنے لگتا ہے، ضرور کھولنا چاہیے اور اس پر جتنا بھی غصہ آ ئے کم ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ ہم نے خود کیا تعلق قائم کر رکھا ہے۔ ہماری زندگی سنتوں سے کس قدر معمورہے، ہمیں اس کا محاسبہ کر نے کی ضرورت ہے، ہمارے بچوں کے اندر نبی علیہ السلام کی سیرت کا کتنا چر چا ہو تا ہے ، ہمارے گھروں میں سنتیں کتنی زندہ ہیں؟

اس کا سہل و مجرب طریقہ یہ ہے کہ صبح بیدار ہو نے سے سونے تک روز مرہ کی دعائیں یاد کی جائیں، بچوں کو بھی یاد کرائیں، اس مو ضوع پرسیرت پاک پر مشتمل کتابیں بازار میں عام ملتی ہیں، انہیں ہم پڑھیں، اپنے اہل و عیال میں سنائیں، اسی سے ایک ماحول بنے گا اور سنتوں پر عمل کا داعیہ پیدا ہو گا، انشاء اللہ ہماری سیرت و صورت، عادات واخلاق سنتوں کے پاکیزہ رنگ میں ڈھل جائیں گے اور زندگی کے ہر مو ڑ اور ہر مر حلے پر ہم نبی مہربان ﷺکی سیرت طیبہ کو اپنا اسوہ بنا کر زندگی گزاریں تو یہ عمل بلا شبہ دونوں جہاں میں سر خ روئی کا باعث ہو گا ،اور اس کے صالح اثرات نہ صرف یہ کہ ہماری زندگی میں ظاہر ہوں گے، بلکہ ہماری نسلوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا۔