• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
آج کل ہمارے لئے لندن میں رہتے ہوئے بھی بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی اور خونریزی سے اہم لکھنے کیلئے بھلا اور کون سا موضوع ہو سکتا ہے۔ ہمارے بڑوں نے ہندوستان کی تقسیم کو ہوتے دیکھا اور ہم نے 1971 میں پاکستان کو، ہندوستان کی تقسیم ہوتے وقت پاکستان بنانے والوں کا بیانیہ یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان اکھٹے نہیں رہ سکتے لہٰذا مسلمانوں کو علیحدہ ملک چاہئے، صرف اس کے 30برس بعدپاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے حصے یعنی مشرقی پاکستان (بنگال) کے عوام نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اکھٹے نہیں رہ سکتے سو بنگلہ دیش بن گیا لیکن ان دونوں تاریخی واقعات میں لاکھوں جانوں کا خون بہا، ان دونوں بٹواروں کی بنیاد نفرت بنی، پہلے میں ہندو اور مسلمان اکھٹے نہیں رہ سکتے تھے اور دوسرے میں مسلمان بھی اکھٹے نہیں رہ سکے، پہلے میں مسلم نیشنل ازم بنیاد بنا اور دوسرے میں قومیتی نیشنل ازم، لیکن دونوں جگہوں پر مشترکہ بات حقوق کی پامالی بھی معاشی استحصال تھا، بنگالیوں کا تو رونا ہی یہ تھا کہ نہ تو ان کے صوبے کے وسائل ان پر خرچ ہو رہے ہیں نہ ہی مرکز انہیں ان کے حقوق دیتا ہے، اب ان دو بڑے تاریخی واقعات کے بعد اس طرح کی ملتی جلتی صورتحال نے بلوچستان کا رخ کر لیا ہے، یہاں بھی سب کچھ ایک دَم سے نہیں ہوا جس طرح ہر واقعہ کے پس پشت اس کے کچھ اسباب اور وجوہات ہوتی ہیں، گزشتہ دنوں بلوچستان کے 12 اضلاع میں جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کی جانیں گئیں، پل ، عمارتیں، سڑکیں، پولیس اسٹیشن، فوجی چیک پوسٹیں اور درجنوں گاڑیاں تباہ ہوئیں جو انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت امر ہے لیکن ان واقعات کے ہونے کو تھوڑا تاریخی پس منظر میں دیکھنا بہت ضروری ہے اور یہ جاننے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا، کیا جائے کہ آئندہ ایسا نہ ہو اور کیا ایسا کچھ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ ایسا نہ ہو کیونکہ ان واقعات اور بلوچوں کے ساتھ اس نفرت آمیز کشیدگی کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہوئی کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی حکمران کلاس نے صرف وہاں کے سرداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھا، عوام کے ساتھ کسی قسم کی محبت کی راہیں استوار نہیں کیں اور سردار بھی ہمیشہ مرکز کی وعدہ خلافیوں اور زیادتیوں کا ذکر کرتے رہے حتیٰٰ کہ جب مارچ 1948میں خان آف قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کیا توفوراً بعد ہی اس نے اس الحاق کے لئے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرنا شروع کردیا اور فوراً ہی تقریباً اس معاہدے کے دستخط ہونے کے صرف 18 دن بعد بلوچستان میں فوج داخل ہوگئی۔ قلات قبیلے کے چھوٹے سرداروں جو کہ الحاق کے خلاف تھے یا الحاق کے دستخط کے وقت کئے گئے وعدوں کی مرکز کی جانب سے خلاف ورزیوں پر واویلا کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ 1958 میں تو جب یہ مٹھی بھر سردار اپنے قبائل کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ گئے تو انہیں جھوٹے وعدے کرکے نیچے اتارا گیا اور نیچے اترتے ہی یا تو گرفتار کر لیا گیا یا کچھ کو گولیوں کا نشانہ بنایا جس سے بلوچوں میں پاکستان میں شامل ہونے کے عمل پر غلطی کا اعتراف کرنا شروع کر دیا پھر حکومت پاکستان نے وہاں ترقیاتی کاموں کی بجائے صرف سرداروں کی جیبیں گرم کرنا شروع کردیں، ان کا خیال تھا کہ سردار ہمارے ساتھ رہیں گے تو یہ کمزور اور ان پڑھ نچلا طبقہ ہماری مٹھی میں رہے گا۔ وقتی طورپر تو یہ بیانیہ ٹھیک رہا لیکن طویل المیعاد دورانیے میں وہاں ایک ہلکی پھلکی تعلیم یافتہ کلاس بھی پیدا ہوگئی جو ہ اب سرداری نظام کے خلاف جذبات رکھنے لگی تھی جو آج بھی ہے۔ آج سردار ایک طرف ہیں اور یہاں کی مڈل کلاس، دوسری طرف بی ایل اے انڈیا کی مدد سے وہاں مسلح جدوجہد کرنے کے دعوے کرتا ہے جب کہ مڈل کلاس کے عموماً نوجوان اس بی ایل اے کے عمل کے حمایتی نہیں ہیں بلکہ وہ اب نئی قیادت جو کہ ماہرنگ بلوچ کی قیادت میں سر اٹھا رہی ہے اس کے پیچھے ہیں، لیکن پاکستان کے حکمران سبھی کو صرف دہشت گرد کہنے پر تلے ہیں جس سے وہ قانونی اور آئینی طور پر حقوق کی جنگ کرنے والوں کو دہشت گردوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف بلوچوں کے حقوق پر کوئی عملی چارٹر پیش کرنا چاہئے دوسری طرف اس نئی ابھرتی مڈل کلاس کو جمہوری عمل میں حصے دار بنانا چاہئے، وگرنہ اب واپسی مشکل ہو جائے گی۔
یورپ سے سے مزید