• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
برطانیہ میں بھکاری بننے پر آج سے 200برس پہلے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 1824میں ایک قانون کے تحت سڑکوں، گھروں، تفریحی جگہوں، پارکوں اور گاڑیوں میں مسافروں سے بھیک مانگنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا جو آج بھی رائج ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں ایسا نہیں ہے وہاں بھکاری مانگ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ جارحیت پسندی کا مظاہرہ نہ کریں اور ڈرا دھمکا کے بھیک نہ مانگیں۔ 2023 میں اسکاٹ لینڈ کے علاوہ باقی یوکے میں بھیک مانگنے پر ایک ہزار بھکاریوں کو گرفتار کیا گیا ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بڑی عمارتوں، ریلوے سٹیشن اور کونوں کھدروں میں بستر لگا کے سو جاتے ہیں اور دن ہوتے ہی وہیں بیٹھے بھکاری کے روپ میں آجاتے ہیں۔ برطانیہ میں حکومت اس لئے سختی کرتی ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ریاست روٹی، کپڑا، مکان، صحت ،تعلیم کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے تو پھر بھکاریوں کا شوشہ کیوں رکھا جائے لیکن اب برطانیہ میں جب سے یورپ کے کچھ ملکوں سے حبشی یا خانہ بدوش پس منظر کے لوگ آنے شروع ہوئے ہیں انہیں کام یا سٹیٹ بینیفٹس کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی، ان کے قیام کی بھی کوئی واضح قانونی شکل نہیں ہوگی یا وہ مکمل طور پر غیر قانونی ہوتے ہیں تو پھر انہیں پیٹ بھرنے کیلئے بھکاری بننا پڑتا ہے۔ البتہ یورپ سے بہت سے پیشہ ور بھکاری بھی یہاں برطانیہ میں بڑی تعداد میں آتے ہیں، اسی وجہ سے برطانیہ میں گزشتہ دہائی میں بھکاریوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ عام طور پر بڑی عمارتوں یا ریل سٹیشنوں کے باہر یاں کسی زیادہ پیدل آمدورفت والی جگہ پر ڈیرہ جما کے بیٹھ جاتے ہیں بہت سے بھکاریوں کو گاڑی چھوڑنے آتی ہے اور لے کر بھی جاتی ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بھکاری باقاعدہ پیشہ ور فقیر ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے وہ جگہ ایک مخصوص اڈہ ہے جہاں شفٹوں میں بھکاری بدلتے رہتے ہیں۔ ان میں اکثریت یورپی پس منظر کی ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے برٹش انتظامیہ کی جانب سے انہیں کافی چھوٹ دی گئی ہے وگر نہ اگر برٹش گورنمنٹ چاہے تو بھکاری دھندہ فوری طور پر بند کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ میں ایسے بھکاری خاص طور پر کوفت کا سبب ہوتے ہیں جو کسی ٹریفک لائٹ پر لال اشارے کے دوران آکر زبردستی گاڑی کا شیشہ صاف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس موضوع پر بات کرتے کرتے مجھے پاکستان کا خیال آیا جہاں گزشتہ ہفتے پاکستان کے بڑے اخبار انگریزی اخبار میں پاکستان میں موجود بھکاریوں کے متعلق ایک بہت اہم رپورٹ شائع ہوئی جس میں پاکستان کے بھکاریوں کا جس انداز سے ذکر کیا گیا وہ ایک چونکا دینے والا انکشاف ہے۔ ا،بار کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی 23 کروڑ کی آبادی میں تقریباً چار کروڑ پیشہ ور بھکاری ہیں۔ اس بھکاری انڈسٹری میں یہ تمام فقیر فقط پاکستان میں ہی نہیں رہتے بلکہ ان کے منظم گروہ ہیں جو ان سے بھکاریوں کا کام لینے کیلئے بیرون ممالک بجھوانے کا بندوبست کرتے ہیں اور عموماً انہیں مذہبی سرگرمیوں اور مذہبی زیارتوں کی آڑ میں سعودی عرب، ایران اور عراق بھجوایا جاتا ہے وہاں کی حکومتیں انہیں روکنے کیلئے گرفتار بھی کرتی رہتی ہیں۔ ان ممالک میں گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں 90 فیصد پاکستانی ہیں۔ سعودی حکومت متعدد مرتبہ پاکستانی حکومت سے اس مسئلے کے صدباب کے لئے اس مسئلہ کو اٹھا چکی ہے، یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ان ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ کی کوئی خاص عزت اور مقام نہیں ہے اور پاکستانیوں کو وہاں بہت ہتک آمیز انداز میں ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ وہان پہنچتے ہی خود کو بھکاریوں کے بھیس میں بدل لیتے ہیں۔ اب یہ پاکستانی ان تینوں ملکوں کے ساتھ ساتھ کئی یورپی ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں جن میں فرانس، سپین اور اٹلی شامل ہیں جہاں کافی تعداد میں اب پاکستانی بھکاری نظر آجاتے ہیں۔ پاکستان میں مزاروں، قبروں، درباروں اور مقبروں پر اسی بھکاری مافیا کا قبضہ ہے۔ جب ان کی سالانہ آمدنی کا مجموعی طور پر تخمینہ لگایا گیا تو ان کی آمدن 45 ارب ڈالر سے اوپر ہے، یہ اپنے اڈوں پر منشیات کے دھندے کے علاوہ کئی طرح کی غیرقانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 3 فیصد سے لے کر 11 فیصد تک آبادی کسی نہ کسی شکل میں بھکاری بزنس میں ملوث ہے۔ پاکستان میں 12 لاکھ بچے اسکول جانے کی بجائے ہر وقت سڑکوں پر مانگتے پھر رہے ہوتے ہیں جو بھیک مانگنے کیلئے اللہ ،رسول اور مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں میں بھکاریوں کیلئے بڑا نرم گوشہ پایا جاتا ہے لوگ ان پیشہ ور بھکاریوں سے اپنی من کی مرادیں پوری کرنے کی دعائیں بھی کرواتے ہیں، اس لئے پاکستان میں بھکاریوں کی بڑھتی تعداد پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتاہے۔
یورپ سے سے مزید