• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقامی ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ، اعلیٰ عہدیدار فیصلہ نہ کرسکے

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) وزارت توانائی کے سینئر حکام نے دی نیوز کو بتایا کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ادھر ادھر ہاتھ چلا رہے ہیں کہ مالی سال 25 کے بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے عائد کردہ سیلز ٹیکس چھوٹ کی رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے جس سے 7سات سالوں میں مقامی ریفائنریوں کے اپ گریڈ منصوبوں کیلئے 5-6ارب ڈالر کی انتہائی ضروری سرمایہ کاری کے آغاز کی راہ ہموار ہو گی۔ ایس آئی ایف سی (خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل) کی سطح پر ریفائنریز کے نمائندوں، پیٹرولیم، فنانس ڈویژنز اور ایف بی آر کے حکام کے درمیان اتفاق رائے سے طے پانے والی تمام کوششیں بظاہر ناکام ہوگئیں جیسا کہ کچھ آپشنز پر کام کرنے کے بعد ایف بی آر کے اعلیٰ افسران نے کہا کہ اگر مذکورہ آپشنز کو لاگو کیا جاتا ہے تو اس سے ریونیو متاثر ہوگا جس کی وجہ سے ٹیکس اکٹھا کرنے والی ایجنسی کو آپشن کو نافذ کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی منظوری کی ضرورت ہے۔ حکام نے کہا کہ اس وقت ای سی سی (اقتصادی رابطہ کمیٹی) سے پی او ایل مصنوعات (پیٹرول، ایچ ایس ڈی، مٹی کے تیل، ایل ڈی او) پر 5 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی سمری پٹرولیم ڈویژن میں رکی ہوئی ہے جیسا کہ وزیر پٹرولیم نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سیلز ٹیکس کا نفاذ مجوزہ 5 فیصد کے بجائے 1فیصد ہونا چاہئے۔ 5 فیصد کا مطلب مذکورہ مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر 14-15 روپے کا اضافہ ہے۔ تاہم وزیر نے مذکورہ پٹرولیم مصنوعات پر ریفائنری سیکٹر کی صفر شرح کی حیثیت کو بحال کرنے کی تجویز سے بھی اتفاق کیا۔ ریفائنریوں کے ساتھ صفر درجہ بندی کی حیثیت ٹھیک ہے لیکن آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اس بنیاد پر سیلز ٹیکس کا نفاذ چاہتی ہیں کہ اس کے 70 ارب روپے پہلے ہی ایف بی آر کے پاس ریفنڈز کی مد میں پھنسے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے سیلز ٹیکس کا نفاذ چاہتے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید