چیئرمین کشمیر کونسل ای یو علی رضا سید کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کراکے ایک ایسی کٹھ پتلی اسمبلی بنانا چاہتی ہے جو اس کے غیر قانونی اقدامات کی توثیق کر دے۔
بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے علی رضا سید نے برسلز میں گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو غیر قانونی طریقے سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور اس کے بعد اس نے ریاست کے ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کی تاکہ وہ غیر کشمیریوں کو جموں و کشمیر میں آباد کر کے کشمیریوں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کر سکے۔
علی رضا سید کا کہنا ہے کہ بھارت ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا ڈرامہ رچا کر عالمی برادری کو بھی جھانسہ دے رہا ہے، حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں 10 لاکھ افواج تعینات ہے جس نے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رکھا ہے جبکہ اظہارِ رائے اور آزاد میڈیا پر بھی پابندی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وادی میں کالے قوانین نافذ ہیں اور اہم کشمیری رہنما اور سیاسی کارکن اپنے وطن کشمیر سے دور بھارت کی جیلوں میں قید ہیں، جن میں ممتاز حریت رہنماء یاسین ملک اور انسانی حقوق کے علم بردار خرم پرویز بھی شامل ہیں۔
علی رضا سید نے واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کی چالیں سمجھتے ہیں کیونکہ جواہر لال نہرو سمیت کئی بھارتی حکمراں کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دینے کے جھوٹے وعدے کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال اتنی گمبھیر ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر ملکی صحافیوں کو جانے کی بھی اجازت نہیں۔
چیئرمین کشمیر کونسل ای یو علی رضا سید نے یہ بھی واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی عمل داری کے تحت انتخابات ہرگز مسئلہ کشمیر کا حل نہیں اور نہ ہی یہ حقِ خودارادیت کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے ذریعے رائے شماری کرائی جائے تاکہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں، کشمیری عوام اپنے حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور بھارتی آئین کے تحت کسی قسم کی ووٹنگ یا اسمبلی کے انتخابات آزادیٔ کشمیر کے مترادف نہیں۔
علی رضا سید نے کہا کہ بھارت کا جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر ناجائز قبضہ ہے اور کشمیریوں کو یہ ناجائز تسلط ہر گز قبول نہیں۔
چیئرمین کشمیر کونسل ای یو کا کہنا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات کروا کر کشمیری عوام پر ہونے والے اپنے مظالم اور وحشیانہ قتل و غارت پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر میں امن اور جمہوری عمل جاری ہے۔
علی رضا سید نے کہاکہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارتی مظالم کا نوٹس لینا ہوگا اور مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کے لیے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے تحت جموں و کشمیر میں رائے شماری کرانا ہو گی۔
یاد رہے کہ ایک دہائی کے بعد بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسمبلی کے پہلے انتخابات کا انعقاد 3 مرحلوں میں یعنی 18، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو کرا رہی ہے۔
اس سے قبل اسمبلی کے انتخابات 2014ء میں ہوئے تھے جس کے نتیجے میں بھارتی حکمران جماعت ’بی جے پی‘ نے ’پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی۔
یہ اتحاد شدید اختلافات کے بعد 2018ء میں ختم ہو گیا تھا، 2019ء میں بھارت کی مودی حکومت نے اپنے ملک کے آئین میں تبدیلی کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کر کے مرکزی حکومت کو کنٹرول میں لے لیا تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے ریاست کی آئینی حیثیت اور فیصلہ سازی کا اختیار بھی ختم ہوگیا تھا۔
خاص طور پر ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی سے غیر کشمیریوں کو جموں و کشمیر میں بسانے کی راہ ہموار ہوئی۔