ڈاکٹر تبسم
موجودہ دور پُر آشوب بھی ہے اور مادیت زدہ بھی ۔ زیادہ تر نوجوانوں کے سامنے بس ایک ہی مقصد ہوتا ہےکہ وہ ز یادہ سے زیادہ دولت کمالیںاور معاشرے میں کروفر کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ہرنوجوان صلاحیت، سوچ اور ذہانت میں ایک دوسرےسے مختلف ہوتا ہے۔ آپ دوسروں کی باتوں سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے آپ کو دیکھیں۔
خود کو سمجھیں اور پرکھیں اور دیکھیں کہ آپ میں کیا کچھ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ اس کے بعد کوئی راستہ منتخب کریں زندگی میں پیسے کا نہ ہونا بُری بات نہیں ہے لیکن پیسے کی لالچ رکھنا اور لالچ میں آکر پیسہ حاصل کرنے کے لیے غلط راستے اختیار کرنا بُری بات ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک واقعہ نذرِ قائین ہے۔
ایک گورنمنٹ افسر ، سرکاری گاڑی میں بیٹھا ، ایک فائل کا مطالعہ کرتے ہوئے گھر جا رہا تھا۔ ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی۔ ایک آدمی لنگڑاتا ہوا آیا ۔’’صاحب اللہ کے نام پر کچھ مدد کیجیے ۔‘‘ افسر نے غصے بھری نظر اس پر ڈالی تو وہ ساتھ والی گاڑی کے شیشے پر جا پہنچا ۔’’ اللہ کے نام پر صاحب کچھ دے دیں۔‘‘ گاڑی کا شیشہ نیچے اترا ۔ پچاس کا نوٹ اُس کے کشکول میں آگیا ۔افسر اور ان کا ڈرائیور دونوں یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
ادھر ٹریفک سگنل کھلا ،گاڑی چلی۔ کچھ آگے جا کر افسر نے اپنے ڈرائیور سے کہا، ’’ میاں تم نے دیکھا، بنا کچھ کام کیے بھکاری نے پچاس روپے کما لیے ۔ ایک ہم ہیں کہ پورا دن آفس کو دیتے ہیں صبح سے سورج ڈھلنے تک اپنے آپ کو روندتے ہیں ،تب جا کر تنخواہ ہاتھ آتی ہے ۔‘‘
ڈرائیو ر نے خاموشی سے افسر کی بات سنی ، افسر نے پھر ڈرائیور سے پوچھا، ’’ اچھا یہ بتاؤ تمھیں کیسا محسوس ہوا ، تم بھی تو میرے ساتھ مسلسل ڈیوٹی پر رہتے ہو۔ تمھیں برا نہیں لگا کہ اس نے بنا کچھ محنت کیے پچاس روپے کما لیے، اسی طرح دن میں کئی پچاس روپے کما لیتا ہوگا، بلکہ تم سے تو زیادہ ہی کما لیتا ہو گا ۔‘‘ یہ کہہ کرافسر نے طنز بھرا قہقہ لگایا۔
ڈرائیور نے کہا،’’صاحب میں بلاشبہ آپ سے کم تنخواہ لیتا ہوں، مگر ایک بات ہے میں اس بھیک مانگنے والے سے اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا آپ ہوئے ۔ کیوںکہ میں جانتا ہوں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، بھیک مانگنے والے نے اپنی عزت نفس دے کر اس بھیک کی قیمت چکائی ہے اور وہ ہر ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔ میں ڈرائیور ہوں۔ عزت اورمحنت مزدوری کر کے کھاتا ہوں ۔ دنیا میں جس چیز کو آپ مفت کہہ رہے ہیں جس پر رشک کر رہے ہیں،وہ بھی مفت نہیں ملتی‘‘۔
آج ہمیں یہی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ۔ مالی معاملات کی ذرا سے سختی معیار سے گرا دیتی ہے ،حالانکہ مکمل توجہ ، صبر اور تسلسل سے اپنے حصے کی محنت جاری رکھنی چاہیے ۔ اکثر نوجوان پیسے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور زیادہ اور زیادہ کا راگ جب دماغ میں بار بار بج رہا ہو تو انسان کے ہیروز بھی بدل جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ آپ کا ہاتھ ایسا بانٹنے والا ہو جو کئی بھکاریوں کے کشکول بھر دے نا کہ آپ کا دماغ کسی بھکاری کے کشکول میں اٹکا ہو۔
شارٹ کٹس کے چکر میں نوجوان اُلٹے سیدھے کام کیے جارہے ہیں۔ کسی بھی امیر انسان کے بارے میں پڑھیں، ان کی زندگی کا مشاہدہ کریں تو ایک بات آپ کو واضح نظر آئے گی کہ جس نے جتنا نام، مقام ، پیسہ کمایا، اس نے اتنی ہی جدو جہد کی۔ یاد رکھیں، صرف خواہش سے بات نہیں بنتی بلکہ کامیابی پہلے قیمت وصول کرتی ہے، جس کی ادائیگی پیشگی ادا کرنی پڑتی ہے ۔وہ قیمت کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے۔
پہلی قیمت محنت کی دوسری صبر کی اور تیسری قیمت ذمہ داری کی ہے۔ یہ تینوں قیمتیں ادا کر کے آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ بات اِتنی سی ہے کہ کچھ دیے بغیر کچھ ملتا نہیں۔ اور یہ بھی طے کرنا ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز کو پانے کے لیے کس حد تک جانا ہے۔ جو کچھ ہم کررہے ہوں‘ اُس کے بقدر حاصل ہونا چاہیے۔ یہ اُصول پوری زندگی پر محیط ہے۔
محمد علی جناح سے قائدِ اعظم بننے کا سفر، محمد اقبال سے علامہ اقبال حکیم الامت شاعر مشرق ببنے کا سفر ، ڈاکٹر عبدالقدیر بننے کا سفر ، اینٹوں سے شاہی محل بننے کا سفر اتنا آسان نہیں۔ ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ مشرق سے مغرب تک ہزاروں شخصیات کی عظیم داستانیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر نامور شخص نے کسی نا کسی صورت میں کوئی نا کوئی قیمت چکائی ہے۔ ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد و قلم کار اس مقامِ خاص تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔
شاہکار عمارت کی طرح شاہکار انسان کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے انہیں حاصل ہونے والی عزتیں ان کی قربانیوں کی بدولت ہوتی ہیں۔ آپ بھی محنت کر کے اپنی قیمت وصول کریں گے تو ایک دن آپ بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ مثبت اور نتیجہ خیز محنت مقاصد کے حصول میں مدد فراہم کرےگی۔
اپنی کسی کامیابی سے یہ ثابت کیجیے کہ دنیا میں آپ کا نام بھی کامیاب لوگوں کی فہرست میں لکھا جائے۔ بس اس اصول کو پلے سے باندھ لیں کامیابی کا شارٹ کٹ نہیں ہوتا ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔