کبھی میں خود زیر تعلیم تھا اور اب پنجاب یونیورسٹی میں نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہوں۔ لیکچر روم سے باہر نکل کر چند قدم ہی چلا تھا کہ کچھ طلبا و طالبات نے گھیر لیا ایک طالب علم آگےبڑھا اور ایک دوسرے کالم نگارکے کچھ عرصہ قبل شائع ہونیوالے کالم کو سامنے لاتے ہوئے کہنے لگا کہ اس کالم نے جشن آزادی کا مزہ کرکرہ کر دیا تھا ہمیں امید تھی کہ آپ اس پر قلم اٹھائينگے مگر ایسا نہیں ہوا آپ کو اس کا جواب دینا چاہئے تھا ۔ کالم پر نظر ڈالی اور ان بچوں سے کہا کہ اس میں بنیادی نوعیت کی واقعاتی غلطیاں موجود تھیں ۔ اس لئے اس پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔ کیا غلطیاں ہیں ؟ سوال فوری کر دیا گیا ۔ پہلی غلطی تو یہ ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ قائد اعظم نے کیبنٹ مشن پلان تسلیم کرلیا تھا اورکانگریس نے اس کو رد کر دیا تھا ۔ حالانکہ’’ انڈیا ونز فریڈم ‘‘میں مولانا آزاد نے بتایا ہے کہ لارڈ پیتھک اور سر سٹیفورڈکرپس کو ان تجاويز تک لائے ہی وہ تھے اور انہوں نے کیبنٹ مشن پلان سے قبل ہی اس سے ملتی جلتی تجاویز پیش کی تھیں جو کانگریس منظور بھی کر چکی تھی ۔ خیال رہے کہ اس وقت مولانا آزادکانگریس کے صدر تھے ۔ 26 جون 1946 کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اس کو قبول کر لیا صرف عارضی حکومت کے قیام پر اتفاق نہیں کیا مگر 7 جولائی 1946کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے بھی اس کو تسلیم کر لیا اور بعد میں عارضی حکومت کی قیادت تو خود جواہر لال نہرو نے کی ۔ مگر 10 جولائی 1946 کو نہرو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کانگريس دستور ساز اسمبلی میں شرکت کرتے ہوئے اپنے آپ کو معاہدوں کا پابند نہیں سمجھے گی اور جس قسم کے حالات پیدا ہونگے اس کے مطابق آزادی کے ساتھ فیصلے کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ کانگریس نے محض دستور ساز اسمبلی میں شرکت کا وعدہ کیا ہے اور وہ خود کو کیبنٹ مشن پلان میں تبدیلی اور کمی و بیشی کرنے کا مجاز سمجھتی ہے ۔ مولانا آزاد نے انڈیا ونز فریڈم میں تحریر کیاہے کہ میں یہ صاف صاف بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جواہر لعل کا بیان غلط تھا اور کانگریس کو ایسا کوئی اختیار نہیں تھا۔ پھر کانگریس ورکنگ کمیٹی نے دوبارہ اس کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا مگر اس میں یہ کہا کہ’’ اس نے اس کی تشریح اس مقصد سے کی ہے کہ سکیم میں جو تضاد نظر آتے ہیں ان کو دور کر دیا جائے ۔‘‘ کانگريس ورکنگ کمیٹی کے اس بیان میں نہرو کے بیان کو غلط نہیں کہا گیا تھا ۔ کانگریس نے کیبنٹ مشن پلان کو رد نہیں کیا تھا بلکہ تسلیم کرنے کے بعد بد نیتی سے من مانی تشریحات شروع کردی تھیں ۔ ان اختلافات کو رفع کرنے کیلئے قائد اعظم ،نہرو وغیرہ لندن بھی گئے مگر بات طے نہ ہو سکی ۔ ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ کانگریس جداگانہ انتخاب پر راضی نہیں تھی حالانکہ کانگريس تو میثاق لکھنؤ 1916 میں ہی جداگانہ انتخاب پر متفق ہو چکی تھی ۔ اسی طرح 33% نمائندگی کے مطالبہ کو تقسیم کی بنیاد قرار دینا بھی درست نہیں کیونکہ میثاق لکھنؤ میں کانگريس اس پر بھی اتفاق کر چکی تھی ۔ پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت برقرار رکھنے کو طعنے کی مانند پیش کرنے سے قبل یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ میثاق لکھنؤ میں کانگریس سے مطالبات تسلیم کرانے کے ساتھ ساتھ پاسنگ کے اصول کو مسلم لیگ نے تسلیم کر لیا تھا کہ پنجاب اور بنگال میں مسلم نشستیں فیصد کے اعتبار سے کم ہونگی مسلم لیگ نے مزید لچک تجاويز دہلی 1927میں دکھائی جب سندھ ، سرحد ، بلوچستان میں سیاسی اصلاحات اور ایک تہائی نمائندگی کو تسلیم کرنے کےعوض جداگانہ طرز انتخاب سے دستبردار ہو گئی تھی اور ان تجاویز کو مدراس میں کانگریس کے سالانہ اجلاس دسمبر 1927 میں کانگريس نے بھی تسلیم کر لیا تھا ۔ گڑبڑ اس وقت ہوئی جب نہرو رپورٹ نے پہلے سے تسلیم شدہ ان امور کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا یہاں تک کہ برطانوی ہند جیسے ملک کیلئے وفاقی کی بجائے وحدانی طرز حکومت کو تجویز کیا گیا اس رپورٹ کو صرف قائد اعظم نے ہی نہیں بلکہ انڈین لیجسلیٹو اسمبلی میں مسلم اراکین نے مسترد کردیا تھا، قائد اعظم نے تو پھر بھی اس کو قابل قبول بنانے کیلئے اس میں تین تراميم تجویز کی تھیں جو تسلیم نہیں کی گئیں ۔ اب یا تو آئینی معاملات كانگريس پر چھوڑ دیے جاتے اور اگر چھوڑ دیے جاتے اور پھر مانگ لئے جاتے تو وہی ہوتا جو آنند پور ڈیکلیریشن 1973 پر عمل درآمد کرنے کے مطالبہ پر سکھوں کے ساتھ ہوا خیال رہے کہ اس ڈیکلیریشن میں انڈین یونین سے آزادی کا مطالبہ شامل نہیں تھا ۔ 11اگست کی تقریر 23مارچ کو کیوں نہیں کی کا جواب یہ ہے کہ 23مارچ کو سوال یہ تھا کہ نو آبادیاتی نظام کے بعد صورت حال کیا ہوگی جبکہ 11اگست کو نئی ریاست کے خدوخال بیان کئے جا رہے تھے۔ اب 6ستمبر کی تقریر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تو نہیں ہو سکتی ہے ، ہر بات کا موقع محل ہوتا ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان روانگی سے قبل دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو حقوق ہم متحدہ ہندوستان میں مانگتے تھے وہ ہم اقلیتوں کو پاکستان میں دینگے ، قائد اعظم انتقال کر گئے ، لیاقت علی خان شہید ہو گئے پھر بھی یتیم مسلم لیگ کو آئینی طعنہ ، حیرت ہے ۔ یقینی طورپر ان دونوں ہمسایہ ممالک کو دشمنی کو خیرباد کہنا چاہئے باہمی روابط بڑھنے چاہئیں مگر اس سب کیلئےقیام پاکستان پر قلم کی کاٹ دکھانے کی ضرورت نہیں۔