اسلام آباد(رپورٹ:،رانامسعود حسین) سپریم کورٹ نے اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیز کے اپنی سیاسی پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے دائرصدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوںسے متعلق فیصلے کیخلاف دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دورا ن پی ٹی آئی کے وکیل مصطفین کاظمی نے چیف جسٹس دھمکی دیدی اور کہا کہ باہر 500وکلاء کھڑے ہیں دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ کرتے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ ہمیں بے عزت کردیں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کرینگے، چیف جسٹس نے پولیس کو حکم دیا کہ اس جنٹلمین کو باہر نکال دیں، عدالت عظمیٰ نے لارجر بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین کے وکیل علی ظفر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے قراردیاہے کہ یہ تمام ججوں کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ پر اعتراض کو مسترد کرتے ہیں، لوگوں کو مرضی کے بنچ کی عادت ہے، وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت ہے، اب ملک میں اورنہ ہی اداروں میں آمریت ہوگی، اب ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب کو بتا دیتے ہیں، سابق دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟عدالت نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے حکومت کو انکی عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے ہیں، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہم فل کورٹ اجلاس بلا کر پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں؟انہوںنے کہاہے کہ میری نظر میں میرے ساتھی ججوں ( جسٹس سیدمنصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر)نے جو بھی لکھا ہے وہ آئین اور قانون کے دائرہ کا کے مطابق نہیں تھا، کل کلاں میں کسی میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں ؟تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائیگی؟ فریقین مقدمہ ججوں کا انتخاب خود نہیں کر سکتے ہیں، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی کی بنیاد پر بینچ بنتے رہے ہیں؟ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں ہیں، ہم نے ان مقدمات کی بھی سماعت کی ہے؟ جنہیں کوئی سننا ہی نہیں چاہتا تھا، سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کیخلاف کیس بھی ہم نے ہی سناہے،فل کورٹ سے بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن لوگوں کو یہاں من مرضی کے بنچوں کی عادت ہے، مگر وہ زمانے چلے گئے ہیں، سادہ سے آئینی سوالات ہیں؟ کیاآئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق مقدمہ کے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئی ہیں؟جبکہ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میںآئین کے آرٹیکل 63 اے والے مقدمہ میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں؟ کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز نظرثانی کی درخواستوںکی سماعت کی تو عدالت میں 63 اے تفصیلی فیصلہ سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جسکے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری کیا گیا تھا، سپریم کورٹ ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت ایدوکیٹ روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے دلائل توکل مکمل ہوگئے تھے،جس پر انہوںنے موقف اختیار کیا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار کی بناء پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے میں تاخیر ہو ئی تھی۔ انہوںنے بتایا کہ مختصر فیصلہ تو آچکا تھا، لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار تھا،جس پرجسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ ایک عام شہری کا کیس ہوتا تو بات اور تھی؟ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی تھی اسی بناء پر سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی تھی، اس مقدمہ میں دلائل دینے کیلئے مجھے کچھ وقت درکار ہے۔
kk