اسلام آباد(رپورٹ/رانا مسعودحسین )سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمنٹ کے اپنی سیاسی پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد متفقہ طور پر مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواست گزار سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی کی درخواست منظورکرلی ہے اور سپریم کورٹ کا سابقہ فیصلہ کالعدم قراردے دیا ہےجس کے بعد اب منحرف رکن کا ووٹ بھی گنتی میں شمار کیا جائے گا ‘ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفرنے دوران سماعت کہاکہ حکومت آئینی ترامیم لارہی ہے اور تاثریہ ہے کہ یہ عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دیگی‘چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں‘ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن پارلیمنٹ منحرف ہوا ہے یا نہیں ؟ یہ تو اس کی جماعت کے سربراہ کااختیار ہے‘ جج منتخب تو نہیں ہوتے ہیں، انہیں اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے ، تاریخ یہ ہے مارشل لاء لگے تو سب ہی ربڑ اسٹیمپ بن جاتے ہیں،جمہوریت اسی لیے ڈی ریل ہوتی رہی ہے کہ یہ عدالت(سپریم کورٹ) غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی ہے.
انہوںنے کہاکہ ہر ڈکٹیٹر ہی یہی کہتا رہا ہے کہ تمام بدعنوان اراکین اسمبلی اور ایوان ہی کو ختم کر دوں گا، پھر سب لوگ ہی فوجی آمریت کو اپنا لیتے ہیں اور پھر جمہوریت کا راگ شروع ہو جاتا ہے،جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہمیں عدالت میں کھڑے ہوکر کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کیخلاف فیصلہ دے کر دیکھیں،کیا آپ ججوں کو ایسے ڈرا دھمکا کر فیصلے لیں گے؟ دوران سماعت تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے موکل ،عمران خان کی جانب سے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے سماعت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا، جس پر عدالت نے انہیں ایک سینئر وکیل کی حیثیت میںامائیکس کیورائے ( عدالت کا دوست ) مقرر کردیا اور انہوںنے بطور اما ئیکس کیورائے اپنے دلائل پیش کئے جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل پیش کئے ‘چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز نظرثانی درخواستوںکی سماعت کی تو درخواست گزارعمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے جیل سے ویڈیولنک کے ذریعے عدالت میںپیش ہونے کی استدعا کی ہے ، پہلے یہ تو معلوم ہوجائے کہ انہیں خود دلائل دینے کی اجازت بھی ملتی ہے یا نہیں؟ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ عدالت میںکھڑے ہوکر سیاسی گفتگو کررہے ہیں تاکہ کل اخبارات کی سرخیاں لگیںجس پر فاضل وکیل نے اپنی استدعا واپس لیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کے مطابق اس بینچ کی تشکیل درست نہیں ہے اس لیے وہ اپنی درخواست پر کاروائی جاری نہیں رکھنا چاہتے ہیں ۔
انہوںنے کہاکہ حکومت آئینی ترامیم لارہی ہے اور تاثریہ ہے کہ یہ عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دیگی،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس بات پر آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتے ہیں،اگر ہم آپ کی عزت کرتےہیں توآپ بھی ہماری عزت کریں‘ چیف جسٹس نے علی ظفر ایڈوکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں ایک فیصلے سے گھبرا رہے ہیں؟ اپنے دلائل پیش کریں‘ شایدہم یہ درخواست مستر کردیں۔