لندن (جنگ نیوز) ایران کے اسرائیل پر تازہ میزائل حملوں نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک بار پھر ایک بڑی جنگ کے آغاز کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یکم اکتوبر کی شام ایران کی جانب سے اسرائیل میں مختلف مقامات پر 200کے قریب بیلسٹک میزائل داغے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ان میں سے بیشترکو اس نے اپنے فضائی دفاعی نظام کی مدد سے تباہ کر دیا جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس عمل میں امریکی جنگی بحری جہازوں نے بھی اسرائیل کی مدد کی۔ اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس حملے کو ایران کی بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ امریکہ نے ایران کے حملے کو ناکام اور غیرموثر قرار دیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بھی اس حملے میں کسی جانی نقصان کے نہ ہونے کی بات کی گئی ہے جبکہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے 90فیصد میزائل اپنے اہداف تک پہنچے میں کامیاب رہے۔ یہ رواں برس میں دوسرا موقع ہے کہ ایران نے اسرائیل کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ اس سے قبل ایران کی جانب سے دمشق میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈرز کی ایک مبینہ اسرائیلی حملے میں ہلاکت کے بعد اپریل میں جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیل کی جانب 300سے زیادہ ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔ اس وقت اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ حملے میں 170ڈرون اور 30کروز میزائل شامل تھے، جن میں سے کوئی بھی اسرائیلی علاقے میں داخل نہیں ہوا جب کہ 110بیلسٹک میزائلوں میں سے بھی بہت کم تعداد اسرائیل پہنچی۔ اس صورتحال میں دونوں ممالک اپنی اپنی جگہ پر بظاہر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں تو سوال یہ ہے کہ آخر ان میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریباً 2152کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے اور ایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ جس میزائل پروگرام پر وہ کافی عرصے سے کام کر رہا ہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ ایران کے میزائل پروگرام کو مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا اور متنوع سمجھا جاتا ہے ہے۔ 2022میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ میکنزی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس ʼ3000سے زیادہʼ بیلسٹک میزائل ہیں۔ دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اگر کسی ملک کے پاس جدید ترین میزائلوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ میزائلوں کا یہ ذخیرہ اس نے گذشتہ چھ دہائیوں میں امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یا اپنے طور پر ملک ہی میں تیار کیے ہیں۔ سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کئی ملکوں کو میزائل برآمد بھی کرتا ہے۔ اسرائیل کے مشہور میزائلوں میں ڈیلائلا، جبریئل، ہارپون، چریکو 1، جریکو 2، جریکو 3، لورا اور پوپیئی شامل ہیں لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جو کہ کسی بھی قسم کے میزائل یا ڈرون حملے کو بروقت روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غزہ سے حماس اور لبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کو متواتر فضا میں ہی تباہ کر کے وہ آج تک اپنا لوہا منواتا رہا ہے۔ اسرائیلی میزائیل ڈیفنس انجینیئر اوزی روبن نے بی بی سی کو بتایا کہ آئرن ڈوم کی طرح کا دنیا میں کوئی اور دفاعی نظام نہیں ہے اور یہ بہت کارآمد شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اسرائیل سے بہت زیادہ بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے دس گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگانا قطعی درست نہیں ہو گا کہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتور ملک ہے۔ اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔ اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10ارب ڈالر کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24 ارب ڈالر سے ذرا زیادہ ہے۔ جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباً چھ گنا زیادہ ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار جب کہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔ اسرائیل کے پاس جس چیز کی برتری ہے وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ ہے۔ اس کے پاس 241لڑاکا طیارے اور 48 تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں جب کہ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 186ہے اور اس کے بیڑے میں صرف 13جنگی ہیلی کاپٹر ہیں دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ تو نہیں کیا لیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پر نہ بھی ہو، پھر بھی ایران کی بحری فوج کے پاس 101جہاز جبکہ اسرائیل کے پاس 67ہیں۔ ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعد سے اپنے میزائل سسٹم اور ڈرونز پر زیادہ کام کیا اور شارٹ اور لانگ رینج میزائل اور ڈرونز بنائے جو مبینہ طور پر اس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حریفوں کو بھی مہیا کیے ہیں۔ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ایرانی ساخت کے تھے۔ ایران کے میزائلوں میں شہاب ون میزائل ہے جس کی رینج تین سو کلومیٹر ہے جب کہ اسی کا دوسرا ورژن شہاب ٹو پانچ سو کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ شہاب سیریز کا تیسرا میزائل شہاب تھری دو ہزار کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں 700کلومیٹر تک مار کرنے والا ذوالفقار، 750کلومیٹر تک مار کرنے والا قائم 1بھی شامل ہیں۔ ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح -110ہائپر سونک میزائل ہیں جو 300سے 500کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ایران نے سیکڑوں میزائل اسرائیل پر داغے ہیں لیکن دوسرے کے ملک میں جا کر گوریلا آپریشن کرنے کا زیادہ تجربہ اسرائیل کا ہے اور وہ ہمیشہ ہی اس میں کامیاب ہوا ہے۔ لیکن جب بات ہوتی ہے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کی تو ایران کے رقبے اور فوج میں زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آتا ہے کہ اسرائیل ایسا نہیں کرے گا۔ اس کی برتری فضائی طاقت، میزائل اور ڈرونز ہیں اور اگر اس نے ردِعمل ظاہر کیا تو ممکنہ طور پر ان ہی کے ذریعے ہی کرے گا۔ ویسے ماضی میں ایران کے ہائی پروفائل فوجی اور سویلین شخصیات بھی اسی طرح کے حملوں میں ہلاک کی گئی ہیں اگرچہ اسرائیل نے اکثر اوقات اس کا باقاعدہ اعتراف نہیں کیا لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا ہے۔ اس جنگ کا ایک اور پہلو سائبر اٹیک بھی ہو سکتا ہے اور اس جگہ اسرائیل کافی ولنر ایبل (کمزور) لگتا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ ایران کا دفاعی نظام اسرائیل کے دفاعی نظام جتنا ایڈوانس نہیں ہے، اس لیے اسرائیل کے نظام پر سائبر حملہ زیادہ آسان ہے۔ (بشکریہ۔بی بی سی لندن)