اسلام آباد : (انصار عباسی) …ملک کے معاشی اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے حکمران ٹرائیکا یعنی صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق، تینوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور بحالی کی جانب گامزن ملکی معیشت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
حکومت میں موجود کئی لوگوں کو وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہم آہنگی کا پہلے سے علم تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر زرداری ملک کی مالی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں حکمران ٹرائیکا کے دیگر دو ارکان کے مکمل حامی ہیں۔
ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ’’آپ کو اندازہ نہیں کہ صدر مملکت کیا کچھ کر رہے ہیں،‘‘ ٹرائیکا منظم و پر عزم ہے کہ نظام کو غیر مستحکم ہونے نہیں دیں گے اور بحالی کی جانب گامزن ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔
یہ حقیقت عالمی مالیاتی ادارے اور ریٹنگ ایجنسیوں نے بھی تسلیم کی ہے کہ ملکی معیشت بحال ہو رہی ہے۔ آئینی پیکج کی منظوری میں حکومت کی حالیہ ناکامی کے بعد صدر مملکت کی ہدایت پر پیپلز پارٹی وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور میثاقِ جمہوریت کی شقوں کے مطابق ججوں کی تقرری کا نیا نظام متعارف کرانے کیلئے اتفاق رائے کے حصول کیلئے سرگرم ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ صدر زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے آئینی بل کی حمایت کی درخواست بھی کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جن معاملات میں پیپلز پارٹی حکومت یا نون لیگ سے خفا ہو جاتی ہے وہاں صدر زرداری مداخلت کرکے معاملات کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو کابینہ کے اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ مخلوط حکومت عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو 2014 کے دھرنے جیسے اقدامات کو دہرانے کی اجازت نہیں دے گی۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی خیال ہے کہ پی ٹی آئی اپنے سیاسی فائدے کی خاطر مسلسل ملک کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
عدلیہ کے حوالے سے، خصوصی نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے 12؍ جولائی کے اکثریتی (8:5) فیصلے کے بعد سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے حق میں اکثریت کا فیصلہ دینے والے 8؍ ججز کے 14 ستمبر کی وضاحت نے موجودہ سیٹ اپ کے مختلف اہم لوگوں کے خدشات کو مزید بڑھا دیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں 25؍ اکتوبر سے زیادہ دیر ہوئی تو اداروں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگی اور پارلیمنٹ کو نقصان ہوگا۔
بلاول نے بعض معاملات میں عدلیہ کے اقدامات کے وقت پر بھی تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ مخصوص نشستوں پر حکم امتناع کے وقت کی اسکروٹنی کیوں نہیں ہو رہی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 14؍ ستمبر کو پارلیمانی اجلاس کے دن عدلیہ کی جانب سے 4؍ صفحات کی وضاحت جاری کی گئی جس سے عدالتی وقت پر سوالات اٹھائے گئے۔