ذاکر نائیک ایک انڈین شہری ہیں ان کی پیدائش 18 اکتوبر 1965 کو ممبئی میں ایک مذہبی الذہن دودھ فروش عبدالکریم نائیک کے گھر ہوئی انتہائی غربت کے باوجود وہ اپنی محنت اور لگن سے ٹوپی والا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے میں کامیاب ہو گئے ابتداً زبان میں لکنت تھی لیکن اس ہکلاہٹ کے باوجود انہوں نے انگلش اردو خطابت میں اپنا لوہا منوایا تقابل ادیان ان کا پسندیدہ موضوع ہے، اس پس منظر میں وہ جنوبی افریقہ کے مشہور مناظر شیخ احمد دیدات اور پاکستانی معروف سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے متاثر ہیں، 1987 میں انہیں جہاں شیخ احمد دیدات کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا وہیں 1991میں انہوں نے پاکستان یاترا کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد سے فیض ہوئے جو خود بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونے کے ساتھ اسلام کے داعی خطیب اور مبلغ تھے، انہوں نے ہی ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ہدایت کی تھی کہ ڈاکٹری اور تبلیغ دونوں اکٹھی نہیں چل سکتیں۔ڈاکٹر ذاکر کی شہرت 90کی دہائی میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی جب انہوں نے تقابل ادیان پر لیکچرز شروع کیے جن کی ابتدا ساؤتھ افریقہ میں دیدات کی موجودگی میں ہوئی، بعد ازاں انہوں نے اپنا پیس ٹی وی بھی بنالیا ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی کئی خوبیوں کے باوجود کبھی ایک دن کیلئے بھی دیدات کی طرح درویش کے پسندیدہ نہیں رہے، درویش کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب ڈاکٹر ذاکرکی شہرت انڈیا سے آگے تک پھیلنا شروع ہوئی تو مذہبی شعور سے نابلد لیکن عقیدت میں ڈوبے ہوئے نوجوان احباب اکثر ان کا ریفرنس دیتے ہوئے استفسار کرتے تو درویش کا جو جواب ہوتا ہے وہ بیشتر سننے والوں کی پسند پر پورا نہ اترتا، ایک دفعہ تو شامی صاحب نے ناراضی کا اظہار بھی کیا، شاید آج بھی ہمارے کئی احباب ان کے نظریات پر میری تنقیدی سوچ کو پسند نہ کریں۔ حالیہ دنوں طویل سرکاری دورے پر ڈاکٹر صاحب کی پاکستان یاترا کا پروگرام سامنے آیا تو جہاں ایک نوع کی تشویش ہوئی وہیں خیر کا ایک پہلو بھی ذہن میں آیا، تشویش اس بات کی کہ پاکستان میںمذہبی جنونیت پہلے ہی زوروںپرہے، ایسے میں ڈاکٹر ذاکر کی آمد سے پہلے سے موجود شدت پسندی میں کئی گنا اضافہ ہو جائیگا۔ ان تحفظات کے باوجود خیر کا پہلو یہ لگا کہ ہمارا پاکستانی سماج جس فکری جمود کا شکار ہے ایسے میں اگر کوئی پتھر پھینکے گا توسماج میں کچھ نہ کچھ ہلچل یا ارتعاش ضرور آئے گا اور اس میں سے تعمیر کی گنجائش نکا لی جا سکتی ہے، آج الحمدللّٰہ دونوں باتیں درست ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ بھی اچھا ہوا ہمارے جو دوست پہلے انکے لیکچرز بطور ریفرنسز پیش کرتے تھے آج ان کا سہانہ خواب تو ٹوٹا ان کی آنکھیں تو کھلیں ۔بالخصوص خواتین کے حوالے سے الٰہیات کے تصورات کھل کر سامنے آئے یہ ناچیز ڈاکٹر صاحب کے افکار عالیہ پر قطعی تنقید نہیں کر رہا۔ کالم لکھنے سے قبل درویش یہ سوچ رہا تھا کہ کچھ بھی نہ لکھوں صرف حضرت کے خیالات ،ملفوظات اور فرمودات ہی تحریر کر دوں تو سمجھنے والے سب کچھ سمجھ جائیں گے۔ اس سلسلے میں شروع ہو جاتے ہیں حضرت کے اولین خطاب سے جس میں آپ نے ملائشیا سے اپنے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پی آئی اے والوں نے اتنے نامی گرامی سٹیٹ گیسٹ کے ہزار کلوگرام کے اضافی وزن کا کرایہ معاف نہیں کیا، تم پاکستانیوں سے انڈین لوگ کتنے اچھے ہیں کہ ہزار دو ہزار کا وزن مجھے ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں، مودی غلط ہے انڈیا غلط نہیں ہے، انڈیا میں ہندو مجھے دیکھے گا تو کہے گا ڈاکٹر ذاکر نائیک جو کہے گا سچ کہے گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہے گا، جو عزت مجھے انڈیا میں ملتی ہے وہ یہاں نہیں ملی، جب میں اپنے دعوتی کام کیلئے نکلتا ہوں تو ہندو لوگ میرے پاؤں چھوتے ہیں میں کہتا ہوں ایسے نہ کرو وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھگوان کا آدمی ہے۔ آگے سنیے،فرمایا آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے یہ کسی اور کا نہیں اللہ کا پلان ہے وہ چاہے تو صبح تک اسرائیل نہیں رہے گا’’بہت خوب ڈاکٹر نائیک اس طرح ہمارے لوگ جو اٹھتے بیٹھتے امریکا پر غصہ نکالتے رہتے ہیں اب ہم انھیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غصہ تھوک دو یا پھر اس پر بھروسہ کرو جس کا یہ پلان ہے۔ دیگر باتیں تو خیر ہوتی رہیں گی ،قبلہ ذاکر نائیک ہماری نصف انسانی آبادی یعنی خواتین سےیہ کہتے سنائی دیئے کہ ’’جن عورتوں کو کنوارے مرد نہیں ملتے وہ شادی شدہ مردوں کی دوسری اور تیسری بیویاں بن جائیں، جو عورت ایسا نہیں کرے گی وہ بازاری عورت بن جائے گی جس کا متبادل لفظ ہے’’پبلک پراپرٹی‘‘ اور اس سے اچھا لفظ میرے پاس نہیں ہے۔ استغفِرُاللّٰہ جو کچھ حضرت نے سویٹ ہوم کی معصوم یتیم بچیوں کے متعلق کیا اور کہا کوئی بھی حساس انسان اس پر دکھ اور کرب محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا، جی چاہ رہا ہے کہ وہ سارے الفاظ ان کی زبان میں یہاں سناؤں اور بتاؤں؟ اور پھر یہ کہ وہ لیڈی اینکر میرے اوپر چڑھ رہی تھی میں پیچھے ہٹ رہا تھا اور پھر جو سلوک اس پختون بچی کے ساتھ کراچی میں کیا گیا جو اپنے کھوکھلے سماج کی سب سے بڑی سچائی اور منافقت بیان کر رہی تھی، آپ شاباش دینے کی بجائےاسے کہہ رہے تھے میری بہن معافی مانگو، کس بات کی معافی؟ یہ کہ تم نے سوسائٹی کی ریاکاری پر سوال کیوں اٹھایا؟ ڈاکٹر صاحب ان ایشوز پر اس ناچیز کی آپ کے استاد ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ بھی خوب بحثیں ہو چکی ہیں، براہ کرم آپ ان تنگناؤں سے نکلیں دنیا کے کتنے ممالک میں اسی شدت پسندی کی وجہ سے آپ پر پابندیاں لگ چکی ہیں، اس حد تک نہ جائیں کہ یہاں بلانے والے بھی پچھتائیں۔