عمر کی مناسبت سے دریا کے سفر کی تین منزلیں ہوتی ہیں۔ پہلی منزل عہد شباب سے یعنی جوانی، دوسری متانت یعنی پختگی اور آخری منزل عمر رسیدہ یعنی بڑھاپا۔ دریا کے سفر کے ان ادوار میں تخریبی اور تعمیری قوتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بالترتیب بعض منفی اور مثبت ’’آپریشنل‘‘ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جن میں نظروں سے اوجھل ’’شکنجہ آبی‘‘ (Hydrolie Press) سرفہرست ہوتا ہے جو سب سے پہلے موسمی اثرات سے متاثر ہونے والی کمزور چٹانی زون پر حملہ آور ہوکر اسے مادر چٹانوں (Parent Rocks) کے جسم سے جدا کرکے بلاک، ملبے، ذرات اور مٹی کی صورت میں پانی کے ساتھ شامل کرلیتا ہے جو عمل کٹاؤ، توڑ پھوڑ یا پھر مجموعی طور پر دریا کا تخریبی عمل کہلاتا ہے ،جس کے توسط سے حاصل ہونے والی ریت، مٹی اور دیگر ملبوس میں سے کچھ تو جہاں بنتی ہے وہیں رہ جاتی ہے جبکہ بیشتر حصوں کو دریا کی تندوتیز دھاریں کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں، یہ نقل و حمل ’’منتقلی‘‘ کا عمل کہلاتا ہے۔
اس کا پھیلائو تخریبی عمل سے لے کر دریا کی آخری منزل یعنی تعمیری عمل تک ہوتا ہے جبکہ دریا اپنے سفر کے اختتام پر ان ملبوں (جو دریا کا بوجھ یا بار کہلاتا ہے) کو دریا کے دھانے پر ولاسیٹی کم ہونے کی صورت میں مقام یعنی سمندر تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ عمل انداخت یا تہہ نشینی یا پھر تعمیری عمل کہلاتا ہے۔ یاد رہے کہ دریا کے سفر کے دوران پیدا ہونے والی ان سرگرمیوں کی وجہ سے جو منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے توسط سے مجموعی طور پر قدیم دور کی بے کیف زمین آج کی پرکیف زمین میں تبدیل ہوگئی ہے۔
دنیا کے دوسرے دریاؤں کی طرح پاکستان میں بھی ’’دریا سندھ‘‘ ان تمام مرحلوں کو بخوبی انجام دے رہا ہے۔ مثلاً ’’اٹک‘‘ کے قریب دریا کے دھاروں کی ولاسیٹی سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دریا اپنے پورے شباب پر ہے، کیوں کہ یہ ایک تکنائے ؟؟میں بڑی روانی کے ساتھ پہاڑوں کو کاٹتے ہوئے رواں دواں ہے لیکن اس کے درمیانی حصے میں قدر خاموشی ہوتی ہے اور لہروں میں کوئی ہل چل بھی نہیں ہے۔
گویا دنیا کے عہد شباب کا زور ٹوٹ گیا۔ اب دریا متانت اور پختگی والے دور میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کے دھاروں میں اب پہلے جیسا زوروشور نہیں رہا۔ اس وجہ سے پانی کی لہریں پھیلتی ہوئی نظر آتے ہیں اور اپنے کناروں پر عمل منتقلی کے ذریعہ مٹی اور ریت کی تہہ بچھاتے ہوئے پست میدان میں بہت سست رفتاری سے بہنے لگتا ہے تو یہ اپنے ستارے کو تہہ در تہہ جمع کرکے ’’عمل انداخت‘‘ کی تکمیل کرکے عمر رسیدہ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
جب پہاڑی علاقوں میں موسلا دھار بارش ہوتی ہے تو دریا کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے اور بارش کا پانی بڑی برق رفتاری کے ساتھ ہر طرف ڈھلوان پہاڑی سطح پر بہنے لگتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ توڑ پھوڑ اور کٹائو کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے جو اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ بارش کا پانی (جو بعد میں دنیا کی شکل اختیار کر لیتا ہے) عہد شباب میں داخل ہو گیا ہے، کیوںکہ اس کے بہاؤ میں بلا کی قوت اور جوش ہوتا ہے، جس کی رگڑ سے چٹانی جسم کے حصے ریزہ ریزہ ہو کر الگ ہونے لگتے ہیں جو ابتداء میں ایک ’’نالی‘‘ کی صورت میں دیکھائی دیتے ہیں لیکن جیسے جیسے زمین سے مٹی، ریت، کنکر اور بلا کس الگ ہونے لگتے ہیں تو نالی بھی بڑی ہوتی جاتی ہے ۔ صرف یہی ایک نالی نہیں ہوتی بلکہ ایسی بہت ساری نالیاں وجود میں آتی جاتی ہیں جو باہم ملکر ’’آب رواں‘‘ کی سیریز بناتے جاتے ہیں جو ایک دوسرے میں مدغم ہوکر آخر کار دریا کو جنم دیتے ہیں۔ جو اپنے عہد شباب میں بیس لیول کے اوپر سے بہتا رہتا ہے۔
اس کاا ہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دریا کی گذر گاہ (چینل) میں موجود چٹانوں پر تسرفی عمل کے ذریعہ کٹاؤ کرتا ہے۔ دریا کے اس عمر میں سب سے غیرمعمولی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ تنگ وادی کی تخلیق کرتا ہے جو انگریزی کے لفظ ’’وی‘‘ شکل کی ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے اسے انگریزی میں ویلی اور اردو میں وادی کہتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ جہاں کہیں بھی یہ موجود ہو گی وہاں سے دریا اپنے جوانی کے عمر سے گذرا ہو گا۔ گویا یہ دریا کے عہدِ شباب کی ایک اہم نشانی ہوتی ہے۔
بعض دریا نیچے کی جانب سے بھی بڑی تیزی کے ساتھ کٹاؤ کا عمل سرانجام دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک تنگ کھڑی دیوار وادی تشکیل پاتی ہے جسے گہر گھڈ یا گارج (Canyon) کہتے ہیں، جس کے ساتھ دریا کا بہاؤ بھی ہوتا رہتا ہے۔بعض مقامات پر اس کی گہرائی ایک میل سے بھی زیادہ معلوم کی گئی ہے۔ یہ درئہ آب’’ عظیم تنگنائے‘‘ کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہے۔
دریا کے عہدِ شباب کا ایک اور نمایاں کردار پہاڑی علاقوں میں ’’آبشار‘‘ کا دیدہ زیب منظر بھی ہے۔ یہ ان علاقوں میں تشکیل پاتی ہیں جہاں عمودی یا تقریباً عمودی قدرتی ڈھلوان موجود ہو یا پھر کسی سخت چٹان کی مزاحمتی قوت پانی کے راستے میں آجائے خاص طور پر یہ کوئی مزاحمتی فارمیشن مثلاً لاوائی ڈاٹک جو ہمیشہ چینل کے آرپار رکاوٹ کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ آبشار میں تبدیل ہونے والے اکثر دریا ان کھڑی مزاحمتی چٹانوں کے بگاڑ شدہ (Falted) لائن سے گذرتا ہے تو آبشار کی تخلیق ہوتی ہے۔ ’’ناگرا آبشار‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔
یہ بنیادی طور پر ایک کھڑی چٹان سے گذرنے والا آبشار ہے جہاں سے ’’ناگرا‘‘ دریا اپنی منزل جھیل اونٹاریو (Ontario) پہنچتا ہے۔ آبشار چونکہ تسرفی قوت کے ذریعہ یعنی تسرفی عمل کے تحت اپنی کٹائو کی قوت ضائع کرتا رہتا ہے، اسی وجہ سے یہ ایک عارضی منظر ہوتا ہے لیکن کچھ مثالیں ایسی بھی ہیں جہیں آبشار ایک مستقل جغرافیائی فیچر کے طور پر موجود رہتا ہے ،جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تشکیل ایسی آتشی چٹان پر ہوتی ہے جو بہت ہی سخت اور مزاحمتی ہوتی ہے۔
یہ پائیدار چٹان کہلاتی ہے، جس کی ایک مثال ’’یلو اسٹون‘‘ دریا کے زیریں حصے میں موجود ہے۔ عہدِ شباب کے دریا کی ایک عام نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ اسکی ذیلی شاخ یاقوت حاصل کرنے والے چشمے (Feeder Strean) کم ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ چشموں کے بڑے سسٹم کو ترتیب دے سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ عہد شباب کے دریا میں پانی کا حجم بہت کم ہوتا ہے البتہ اسکی رفتار میں بلاکی روانی ہوتی ہے جس کے توسط سے دریا عہد شباب میں جو پتھر، مٹی اور ریت بہاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتا ہے جسے نقل و حمل یا منتقلی کا عمل کہلاتا ہے جو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک بھی ہوتا ہے، جس کے دوران کٹاؤ اور منتقلی کا عمل اکثر مشترکہ طور پر انجام پاتا ہے۔ جو کئی طریقوں سے ہوتا ہے۔
مثلاً منتقلی بذریعہ بارکشی (Fraction Transport)، قلابازی (Saltation Transport) اور معلق منتقلی (Syspention Transport) ان تمام طریقے کار میں جو عوامل شامل ہوتے ہیں ۔یعنی پانی کی قوت اٹھائو، پانی کا تصادم، موجوں کے عمل سے مائع دباؤ میں تبدیلی اور گردابی معدن توجہ طلب ہوتے ہیں۔ یہ تمام عوامل ’’منتقلی کے میکنیکس‘‘ کہلاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی دریا کے پانی کی طبعی خصوصیات بھی ملبوں کی حرکت اور نقل و حمل پر اثرانداز ہوتے ہیں، جس میں پانی کی کثافت، اس کی لزوجیت (Viscosity) اور شوریت (Solinity) زیادہ اہم ہے، جس میں کثافت اور لزوجیت کا براہ راست تعلق درجۂ حرارت سے ہوتا ہے۔ اس طرح بالواسطہ طور پر درجۂ حرارت اسوبی ملبوں یعنی بوچھ کی نقل و حمل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ایک دبی ہوئی کیفیت کوئی بھی سیال مادہ مثلاً پانی کی نقل و حمل کی استعداد کے تعین کے لئے زرے کی جسامت کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ایک خاص جسامت کے حامل زرے میں حرکت کی ابتداء کو ’’کریٹیکل فلو ولاسیٹی‘‘ (Critical Flow Velocity) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سیال یا پانی کی وہ قوت جو ذرّات کی تبدیلی مقام کا باعث بنتی ہے وہ پانی کی قوت اٹھائو کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔ جب ایک زرہ کی سطح پر اور متحرک پانی کے ٹکرائو کے نتیجہ میں اپنے ابتدائی مقام سے حرکت کرتا ہے جو فرش تک محدود رہتی ہے۔ یہ خارجی قوت ہوتی ہے جو مائع یعنی پانی کے تصادم کی قوت ہوتی ہے جو حرکت کا باعث بنتی ہے جس کا انحصار اس ٹھوس ذرّے کے نمودار حصوں پہ منحصر ہوتا ہے۔
دوسری طرف غیرہموار فرش پر پانی کے بہائو کے دوران عموماً ایک گردابی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جس میں منتقلی کے دوران حرکت کے دو جُز ہوتے ہیں۔ ایک بہاؤ کی سمت میں دوسرا چکر ( Spiral) کی صورت میں اور فرش ِآب پر موجود ذرّات اس چکر دار حرکت کے زد میں آکر اوپر کی جانب اٹھنے لگتے ہیں اور دوسری معدن حرکتوں کی زد میں آکر آگے کی جانب بہنے لگتے ہیں یہ گردابی معدنی عمل ہوتا ہے۔
عہد شباب سے تعلق رکھنے والے آبشار تیز دھار لہریں، جھیل اور دلدل نظروں سے غائب ہوتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔ دریا کا چینل اس دور میں مکمل طور پر تدریجی (graded )مراحل کو ظاہر کرتا ہے ۔ دریا کے پختگی دور کی ایک اور نشانی یہ بھی ہے کہ اصل چشمے اور اس کی ذیلی شاخ دونوں بیس لیول (Base Level ) یا اس کے قریب ہوتی ہیں۔
مزید یہ کہ عہد جوانی میں دریا کی تشکیل شدہ وادی کے مقابلے میں پختگی دور کی تشکیل کردہ وادی کا فی کشادہ نظر آتی ہے۔ اس کی ڈھلائیں زیادہ عمودی نہیں ہوتی اور اس کی رفتار بھی بہت سست ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دریا جو بوجھ اپنا ساتھ بہاکر لاتا ہے، وہ چینل کے ساتھ ساتھ تہہ در تہہ جمع ہوتے رہتے ہیں، خاص طور پر جہاں کوئی موڑ آجائے۔
یہاں پر پانی پرسکون ہوتا ہے لیکن جب دریا میں طلاطم یا طغیانی پیدا ہوتی ہے تو پانی دریا کے کناروں سے نکل کر اردگرد کے علاقوں میں پھیل جاتا ہے، جس سے مٹی اور ریت کی چادر سے علاقہ ڈھک جاتا ہے۔ اس طرح دریا کے کنارے کے ساتھ پست میدان بنتے چلے جاتے ہیں جو ’’سیلابی میدان‘‘ کہلاتا ہے، جس سے اس بات کی نشاندھی ہوتی ہے کہ دریا دور شباب سے گزر کر ادھیڑ عمر میں داخل ہو چکا ہے جو پختگی کی منزل ہوتی ہے۔ بہت کم دریا ایسے ہوتے ہیں جو اپنے سفر کے دوران اپنی آخری منزل پر جاپہنتے ہیں لیکن کئے قابل ذکر دریا ایسے ہیں جو اپنے عمر کے چکر کو مکمل کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ کر ’’عمر رسیدہ‘‘ دریا کہلاتے ہیں۔ مثلاً دریائے سندھ، دریائے نیل اور میسیسپی۔
ان دریاؤں کے آخری منزل کی شناخت ہے۔ بیچ وخم (Meanders)، کمانی دار جھیل (Oxbow lake) اور ڈیلٹائی ذخیروں کی موجودگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ عام طور پر سیلاب کے زمانے میں جو عارضی سیلابی میدان تشکیل پاتی ہیں ۔وہاں بہت سارے دلدلی علاقے بھی موجود ہوتے ہیں جو دریا کے زیادہ نکاسی عمل کو روکتا ہے ،جس کی وجہ سے قدرتی پشتے (Natural Levees) وجود میں آتے ہیں۔ ذیلی شاخ کی تعداد بڑی حدتک کم ہوتی جاتی ہے،جس کی وجہ اطرافی زمین کی ہمواریت ہوتی ہے۔ یہ ہموار وادی ہوتی ہے، جس نے دریا کی رفتار کو بہت سست کردیا۔
یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب دریا میں کٹاؤ کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے یعنی وہ اپنے راستوں کی چٹانوں کو جتنا کاٹ سکتا تھا کاٹ دیا اب وہ موجودہ ہموار وادی میں بل کھاتے ہوئے سبک رفتاری سے بہتا چلا جارہا ہے اور ساتھ ہی اپنے بوجھ کو راستے میں چھوڑ جاتا ہے۔ دریا کا اس طرح راستے ہیں اپنے ملبے کو خود سے الگ کر جمع کرنا ’’عمل انداخت‘‘ کہلاتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو دریا اپنے سفر کے جس حصے میں بھی اپنی رفتار کو سست کرتا ہے وہ اپنے بار کا کچھ حصہ وہیں چھوڑ دیتا ہے اور سفر جاری رکھتا ہے لیکن ’’عمل انداخت‘‘ یا عمر رسیدہ دریا کی کارکردگی عام طور پر اس کے چینل کے نچلے حصے یا پھر اس کے دہانے کے قریب دیکھائی دیتے ہیں۔
جب دریا کے تیز بہاؤ والی لہریں سمندر یا جھیل کے ساکت و جامد پانی سے ٹکراتی ہے تو اس کی رفتار میں تیزی نہیں رہتی ۔ اب رفتار دھیمی ہو جاتی ہے اور دریا جتنی بھی مٹی، ریت، گاد اور گارے کو اپنے ساتھ بہا کر آتا ہے اسے دریا کے دھانے پر تھاک در تھاک جمع کرتا جاتا ہے۔ پہلے بڑے بڑے پتھر مثلاً کوبل، پیل اور گریول پانی سے الگ ہو کر نیچے جمع ہونے لگتے ہیں پھر درمیانہ پتھروں اور سنگ ریزوں کی باری آتی ہے۔ اس کے بعد باریک اور بہت ہی باریک ریت اور سلٹ کے ذرّات بڑی ترتیب اور سلیقے سے طبق در طبق جمع ہوتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔
عمل انداخت کے توسط سے دریا کے دہانے کی زمین اونچی ہو جاتی ہے تو پانی کے بہاؤ کا راستہ رک جاتا ہے اور وہ دوسری سمت سے بہنا شروع کر دیتا ہے لیکن یہاں پر بھی گاؤ گاروں اور ریت کا انبار جمع ہوتا جاتا ہے۔عام طور پر انداختہ مادّہ کی شکل مثلث کے طرز کا ہوتا ہے جو یونانی زبان کے ایک لفظ ڈیلٹا سے مشہابت ؟؟رکھتا ہے، اسی وجہ سے اس انداختہ مادّہ کو بھی ڈیلٹا کہتے ہیں، جس کی موجودگی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ دریا اپنی آخری منزل بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہے۔
گنگا، سندھ اور نیل دنیا کے مشہور دریا ہیں جن کے دہانے پر بڑے بڑے ڈیلٹا موجود ہیں۔ جس سے بہت زیادہ زرخیز زمین کا ایک ہموار اور کشادہ رقبہ معروض وجود میں آیا ہے ۔ دریا نیل اور دریائے سندھ کے ڈیلٹا خصوصی طور پر اس لئے مشہور ہیں کہ ان سے بہت زیادہ کپاس، پھل اور گندم کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔