• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ۔۔۔ مریم فیصل
برطانیہ میں14برس حکمرانی کرنے والی ٹوری کی حکومت نے امیگریشن کو کنٹرول کرنے کے لئے جہاں بہت سی پابندیوں پر عمل کیا وہیں سب سے بڑی پابندی تھی بین الاقوامی اسٹودنٹس کے ساتھ آنے والی فیملی کے ویزوں پر پابندی لگانا اور یہاں سے ہی قدغن لگا ان لوگوں کے ارادوں پر جو برطانیہ پڑھنے تو بالکل نہیں آنا چاہتے تھے بلکہ مقصد صرف یہاں کی شہریت حاصل کر کے یہاں کی مراعات سمیٹنا تھا اور ایک دو تین نہیں بلکہ لاکھو ں کی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو برطانیہ میں اسٹوڈنٹ بن کر آئے ضرور لیکن نہ ہی اپنے کورسز مکمل کئے اور نہ ہی ڈھنگ کی کوئی ملازمت اختیار کی بلکہ ایذڈا ، ٹیسکو اور الڈی میں ملازمت کر کے پاونڈ کمانے پر پورا زور دیا اور یہ اکیلے تو آئے نہیں تھے پورا خاندان ساتھ لائے تھے،یہی وہ لوگ تھے جن کا برطانیہ کی معیشت میں مثبت طریقے سے بہتری لانے میں کوئی بھی کنٹری بیوشن نہیں تھا بلکہ الٹا یہ نظام پر بوجھ بنتے جارہے تھے ۔ برطانیہ کوئی ترقی پذیر ملک تو تھا نہیں کہ یہاں کے رہنمائوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہاں ہو کیا رہا ہے بلکہ ان سارے تماشوں کے بارے میں یہاں آنے والی ہر حکومت کو مکمل طور پر پتا تھا ، وہ جانتی تھی کہ جو ہم نے بین الاقوامی اسٹوڈنٹس کیلئے برطانیہ آنے کے راستے کھولے ہوئے ہیں اس کو کس طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، وہ تو بس انتظار میں تھیں کہ دیکھے شاید یہ بین الاقوامی اسٹوڈنٹس خود سنبھل جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ خود بھی آتے رہے اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی یہ غلط ترغیب دیتے رہے کہ بس اسٹوڈنٹ ویزا پر جعلی بینک اسٹیٹمنٹ بنوا کر برطانیہ آجائو اور پھر بس کوئی نہیں پوچھے گا ۔ پوچھتا واقعی میں کوئی نہیں ہے بلکہ یہاں برطانیہ میں ہر سال پورا ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے کہ کون کس ویزا پر آیا ،کتنے فیصد نے ملازمت کہاں حاصل کی ، امیگریشن کتنی فیصد رہی اور اسی ڈیٹا سے یہ فیصلے کئے جاتے ہیں کہ کس شعبے میں کتنے انٹرنیشل ویزے جاری کئے جانے چاہئے اور کس شعبے میں پابندیوں کی ضرورت ہے ۔ اسی ڈیٹا نے ٹوری حکومت کو بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ اب اگر انٹرنیشنل اسٹودنٹ آئے تو اکیلا آئے فیملی کو ساتھ لانے کی کوئی تک نہیں اور اسٹوڈنٹ کو بھی اپنے کورس کو مکمل کرنا ہے اور کام صرف اتنا ہی کرنا ہوگا جتنا اسے اجازت ہے اگر کورس مکمل نہیں کیا تو کالج یونیورسٹی سے نکال دیا جائے گا ۔ اس فیصلے پر شور تو بہت مچا لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے البتہ یہاں برطانیہ کی یونیورسٹیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ انٹرنیشنل اسٹودنٹس کے ویزوں پر پابندی لگانے سے یونیورسٹیز کے مالی حالات خراب ہوں گے لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ برطانیہ اپنی جی دی پی کا تقریبا چار فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور ضرورت پڑی تو اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ افسوس ان لوگوں کے لئے ہے جو واقعی یہاں پڑھنے آنا چاہتے تھے ان کے لئے برطانیہ کے راستے بند ہو چکے ہیں کیونکہ لیبر حکومت کبھی بھی ٹوری حکومت کے اس فیصلے کو ختم نہیں کرے گی جب تک سرکیئر اسٹارمر کو یہ یقین ہوجائے کہ بین الاقوامی اسٹوڈنٹس کو ان کی فیملی کے ساتھ بلائے جانے میں برطانیہ کی معیشت کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ۔