کراچی (ٹی وی رپورٹ)ملک کے ممتاز تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی، معاشی اور آئینی ہے۔جب تک ان چیزوں کو نہیں دیکھیں گے تو میں نہیں سمجھتا اس طرح کے حملے ختم ہو جائیں گے‘بلوچستان میں بدترین گورننس ہے ‘ جبسیاسی ٹینشن بڑھتی ہے تو حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے‘جس دن بی ایل اے کو سیاسی چہرہ مل گیا معاملات اس سے زیادہ خراب ہوجائیں گے۔ بات پی ٹی ایم سے ماہرنگ بلوچ سے مینگل سے مالک سے سب سے بات ہونی چاہیے اور ریاست کو بات کرنا آنی چاہیے۔ان خیالات کا اظہار دفاعی تجزیہ کار عامر رانا ‘سینئرصحافی سید علی شاہ اورسینئرصحافی افتخار فردوس نے جیونیوز کے پروگرام ’’جرگہ ‘‘میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئرصحافی سید علی شاہ نے کہا کہ دکی میں جس طرح کے حملے ہوئے اس طرح کے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ۔دکی حملہ آوروں کے پاس راکٹ لانچرز اور دیگر بھاری ہتھیار موجود تھے۔2024ءمیں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ حملوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اور اثر بھی زیادہ ہو رہا ہے۔بلوچستان میں حملوں کی زیادتی کی وجہ اس کی اسٹریٹجک لوکیشن بھی ہے۔ سینئرصحافی افتخار فردوس نے کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب سیاسی ٹینشن بڑھتی ہے تو حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اسلام آباد میں جب دھرنا ہورہا تھا اسی درمیان ایک ہی دن میں تین بڑے حملے ہوئے ۔دفاعی تجزیہ کار عامر رانا نے کہا کہ جب سیاسی کشیدگی ہو تو ہم حساس زیادہ ہوجاتے ہیں اور ہر واقعہ کو ہم کسی نہ کسی سینوریو میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ڈیٹا اس کے برعکس بتاتا ہے۔بی ایل اے کے واضح اہداف ہیں‘اس کا ایک ہدف فوج اوردوسرا چین ہے ۔سید علی شاہ نے مزید کہا کہ بلوچستان مسئلے کو اسلام آباد صرف انتظامی نگاہ سے دیکھ رہا ہے‘ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی، معاشی اور آئینی ہے۔جب تک ان چیزوں کو نہیں دیکھیں گے تو میں نہیں سمجھتا اس طرح کے حملے ختم ہوجائیں گے۔صوبائی حکومتوں کی پرفارمنس مایوس کن ہے اور دوسرے صوبوں سے موازنہ کیا جائے تو بلوچستان میں بدترین گورننس ہے ۔افتخار فردوس نے مزید کہا کہ اب جنگیں بندوق کی نہیں نظریات کی ہیں ۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی قوتیں جو پشتون ایریا میں نکل کر آتی ہیں اور اگر وہ ہیومن راٹس کے نام پر ہوتی ہیں جیسے ابھی پختون تحفظ موومنٹ کا ایک جرگہ شروع ہے ان کو اینگیج کرنے کی ضرورت ہے۔ دو وجوہات ہیں ایک انصاف کا نظام دوسرا گورننس کے مسائل ہیں۔ ریاست سے ہم بار بار گزارش کرتے ہیں کہ جو نان اسٹیک ایکٹرز نہیں ہیں اور سیاسی ڈومین میں کام کرتے ہیں ان کے ساتھ بات چیت کا ذریعہ نکالیں۔صوبائی حکومت سے جب ہماری بات ہوتی ہے جو پی ٹی آئی سینٹرل ہے ان کا موقف علیحدہ ہوتا ہے اور صوبائی کا الگ ہوتا ہے ہم ان سے یہی کہتے ہیں کہ ایک ایسا واضح موقف دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ جانتے ہیں آپ اس میں سے کوئی بات نکال لیں جب ہم بطور صحافی اس کے بارے میں لکھتے ہیں تو پی ٹی آئی کے لوگ گالم گلوچ پر آجاتے ہیں ۔ کبھی کبھی علی امین پر ترس آتا ہے چونکہ انہیں دونوں طرف مینج کرنا ہوتا ہے ۔ پی ٹی ایم کے ساتھ جو مسئلہ تھا اس کو انہوں نے حل کر دیا تو میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف سیاسی میچورٹی کی طرف جارہی ہے لیکن وقت لگے گا۔عامر رانا نے مزید کہا کہ تاریخی طور پر کالعدم تنظیموں کا اتحاد ہوا ہے اور یہ بڑا خاص کیس ہے اس میں ٹی ٹی پی کی خواہش ہے کہ بی ایل اے کے ساتھ اس کا اتحاد ہو ۔ بی ایل اے اس معاملے میں خاصی محتاط ہے اور لگتا یہ ہے کہ انہیں اس پر شدید تحفظا ت ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی ریاست کے ساتھ رہے ہیں اور ریاست کبھی بھی ان کے ساتھ صلح کرسکتی ہے اس صورت میں یہ ریاست کی طرف سے ہمارے خلاف لڑیں گے۔بلوچستان کی انسرجنسی وہ سیاسی چہرے کی تلاش میں ہے اور اس وقت کئی چہرے ایسے ہیں جو بی ایل اے کا سیاسی چہرہ بن سکتے ہیں اور اب ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ ان کو بی ایل اے کا چہرہ بننے سے بچائیں اس کو سول سائٹی کا پاکستان کا چہرہ بنانے کی کوشش کریں۔ جس دن بی ایل اے کو سیاسی چہرہ مل گیا معاملات اس سے زیادہ خراب ہوجائیں گے۔ بات پی ٹی ایم سے ماہرنگ بلوچ سے مینگل سے مالک سے سب سے بات ہونی چاہیے اور ریاست کو بات کرنا آنی چاہیے۔