• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رزقِ حلال کی اہمیت اور انسانی زندگی پر اُس کے اثرات

ڈاکٹر نعمان نعیم

قرآن ِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے میرے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو ، بے شک میں تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہوں‘‘ (سورۂ مؤمنون،:۵۱) امام بن رجب حنبلی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تمام پیغمبروں اور ان کی امتوں کو طیبات یعنی حلال کھانے اور نیک عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس لئے کہ حلال اور نیک اعمال کی قبولیت میں گہرا رشتہ ہے، اگر کھانا حلال کا نہ ہوگا تو نیک اعمال بھی اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوں گے( نضرۃ النعیم)

نیز یہی حکم تمام مومنوں کو بھی دیا گیا’’اے ایمان والو! ہماری عطا کردہ پاکیزہ چیزیں کھاؤ اوراللہ کا شکر ادا کرو ، اگر واقعی تم اس کی عبادت کرتے ہو ‘‘(سورۃ البقرہ) امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اکل حلال دعا اور عبادت کی قبولیت کا سبب ہے، جب کہ اکل حرام دعا اور عبادت کی قبولیت کو روک دیتا ہے( تفسیر ابن کثیر) اور یہی حکم عام انسانوں کو بھی دیا گیا کہ وہ پاکیزہ و حلال چیزیں کھائیں۔

اس حوالے سے فرمایا گیا:اے لوگو! زمین میں جتنی حلال پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی اتباع نہ کرو ، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (سورۃ البقرہ)امام ابن کثیر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں روئے زمین کی ان تمام چیزوں کو کھانے کا حکم دیا ہے جو اس کی جانب سے حلال ہیں اور اپنی فطرت میں پاکیزہ ہیں اور جس کے کھانے سے جسم اور عقل پر برے اثرات مرتب نہیں ہوتے ( تفسیر ابن کثیر)

رسول اللہ ﷺ سے منقول کئی احادیث مبارکہ میں اس کمائی کی سب سے زیادہ تعریف بیان کی گئی ہے جسے انسان اپنے ہاتھ کے ہنر اور محنت ومزدوری سے حاصل کرتا ہے ،بیشتر انبیاء اپنے ہاتھ کے ہنر سے کسب معاش فرماتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت زکریاعلیہ السلام نجار تھے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر کئی انبیاء نے بکریاں چرائی تھیں ، حضرت داود علیہ السلام لوہار تھے، حضرت ایوب علیہ السلام کپڑے کے کاروباری تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ سوت کاتا کرتے تھے، اور رسول اکرمﷺ چمڑے اور کپڑے کا کاروبار فرماتے تھے۔

حضرت مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ کسی شخص نے آج تک اپنے ہاتھ کی کمائی ہوئی غذا سے زیادہ بہتر غذا نہیں کھائی ہے ، اوراللہ کے نبی حضرت داودعلیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے‘‘(صحیح بخاری) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاکیزہ کو ہی قبول کرتا ہے ، اس نے اس معاملے میں مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جوکہ اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے، پھر آپ نے ایسے شخص کا تذکرہ فرمایا جو لمبا سفر(حج) کرتا ہے ، پریشان حال اور غبار آلود جسم کے ساتھ (میدان عرفات میں) کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کرکے کہتا ہے کہ اے میرے رب!اے میرے پالنہار! لیکن اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی ،جب کہ اس کا کھانا ، پینا ، لباس اور غذا سب حرام کا ہے ۔(صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا ’’ تم میں سے کوئی صبح صبح جنگل جائے ، اور اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا ایک گٹھا لاد لائے اور اسے بیچ کر اس سے صدقہ وخیرات بھی کرے اور لوگوں کے مال سے بے پروا ہوجائے تو یہ اس کے حق میں اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی سے بھیک مانگے چاہے، وہ اسے دے یا نہ دے‘‘اسلام میں جہاں محنت کی عظمت اورکسبِ حلال کی اہمیت بیان کی گئی ہے، وہاں حرام مال اور ناجائز آمدنی سے حاصل ہونے والے رزق اور مال و جائیداد کو انسان کی تباہی ،اس کی نیکیوں کی بربادی اور اس کے تباہ کن اثرات کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، چناں چہ کسب ِ حلال کو ایک عظیم نیکی ،باعثِ اجرو ثواب عمل قرار دیا گیا اور دوسری جانب ناجائز اور حرام مال کو وبال اور گناہ کا بنیادی سبب قرار دیا گیا۔جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی میں کسبِ حلال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

کسب حلال اور رزق طیب کی بے شمار برکات ہیں۔ جب لقمۂ حلال انسان کے پیٹ میں جاتاہے تو اس سے خیر کے امور صادر ہوتے ہیں، بھلائیاں پھیلتی ہیں، وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتاہے۔ اس کے برعکس حرام غذا انسانی جسم کو معطل کردیتی ہے۔ نور ایمانی بجھ جاتاہے، دل کی دنیا ویران وبنجر ہوجاتی ہے۔ شیطان اس کے قلب پر قابض ہوجاتا ہے۔ 

پھر ایسا شخص گویا معاشرے کے لیے موذی جانور بن جاتا ہے۔ جس منہ کو حرام کی لت لگی ہو، اس سے بھلا امور خیر کیسے اور کیوں کر انجام پاسکتے ہیں؟ حلال وحرام کایہ کھلا فرق اس حد تک اثر انداز ہوتا ہے کہ طیب وپاکیزہ کمائی کھانے والا عند اللہ مقبول ومستجاب بن جاتا ہے، جب کہ حرام کو جزو بدن بنانے والا ،اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ٹھہرتا ہے۔ اسی بات کوکئی احادیث مبارکہ میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ آیت ’’یا ایّھا النّاس کُلوا ‘‘اللہ کے حبیب علیہ السلام کے روبرو تلاوت کی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا :یا رسول اللہﷺ، میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرما دیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : اے سعد، اپنا کھانا پاکیزہ اورحلال رکھو۔ تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کی عبادات قبول نہیں کی جاتیں۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جس بندے کی نشو ونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو ،جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔(ابن کثیر) 

ایک دوسری حدیث مبارکہ میں، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے ، نبی کریم ﷺ نے مال حرام کی قباحت کو اس انداز میں ذکر فرمایا: بے شک، اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزہ مال ہی قبول فرماتا ہے اور اللہ رب العالمین اپنے مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتا ہے ،جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ 

پھر آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: (ترجمہ)اے رسولو، پاکیزہ اورحلال چیزیں کھاؤ اورنیک عمل کرو۔اے اہل ایمان،جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے پاکیزہ اشیاء کھاؤ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا تذکرہ فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حال اورغبار آلود ہوتا ہے اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعا مانگتے ہوئے کہہ رہا ہو، اے میرے رب، اے میرے رب، جب کہ حقیقت حال یہ ہو کہ اس کا کھانا، پینا اور اوڑھنا سب حرام ہے اور حرام کی غذا اسے مل رہی ہو، سو اس حالت میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟ (مشکوٰۃ)

دیکھا جائے تو آج اکثروبیش تر زبانوں پر یہ شکوہ رہتا ہے کہ ہم اتنی دعائیں مانگتے ہیں، پھر بھی ہماری حالت تبدیل نہیں ہوتی، حالاں کہ تھوڑے تدبر وتفکر سے کام لیا جائے تو ہمیں اپنے معاشرے اورماحول میں کسب حلال کی فکروسوچ ہی مفقود نظر آتی ہے۔ عمومی فضا یہ بن چکی ہے کہ خواہشات کو ضروریات کا درجہ دے دیا گیا ہے، جب کہ انسانی خواہش تو بحربے کنار کی مانند ہے۔

دنیا میں ہر آرزو اور تمنا پوری ہوجائے یہ ناممکن ہے۔ مستزاد یہ کہ ان لامحدود تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے ہمارے درمیان ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایک ہی خاندان میں شوہر کی خواہشیں الگ ہیں ،بیوی کی الگ ۔اولاد کسی اور چیز کے حصول کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے تو ماں باپ کسی دوسری فکر میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں، مال جمع کیا جارہا ہے اور اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ذریعۂ آمدنی حلال ہے یا حرام، جائز ہے یا ناجائز، طیب ہے یاخبیث، حدودِ شرع کے اندرہے یا باہر۔

یہ بالکل وہی صورت حال ہے ،جسے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے چودہ سو برس قبل بیان فرمایا تھا۔ آپ علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جس میں انسان اس بات کی طرف دھیان نہیں دے گا کہ وہ جو مال حاصل کررہاہے، حلال ہے یا حرام ؟ (مشکوٰۃ) جب انسان اکل حلال کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ 

صبروقناعت ،زہدوایثار اور جفاکشی کی جگہ حرص وہوس اور عیش کوشی کو اپنا مطمح نظر بنالیتا ہے تو اللہ رب کریم کی طرف سے نازل ہونے والی برکت ختم ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد کثرت بھی قلّت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے شخص کو قارون کا خزانہ بھی مل جائے تو وہ اسے کم تر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب اپنے ناپاک مال میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتاہے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ یہ حرام بینک بیلنس جب تک اس کی ملکیت میں پڑا رہتا ہے، اس کے لیے دوزخ کی راہ ہموار کرتا رہتا ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ میں اس حوالے سے یوں ارشاد فرمایا: بندہ مال حرام کما کر جب اس میں سے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح جب وہ مال حرام اپنی ذات پر خرچ کرتاہے تواس میں اس کے لیے برکت پیدا نہیں کی جاتی اور اگراس مال حرام کو ذخیرے کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے تو وہ اس کے لیے جہنم کا زادِراہ بن جاتا ہے۔

یاد رکھو،اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں، بلکہ اچھائی سے برائی کو مٹاتا ہے، کیوں کہ خبیث چیز خبیث کو نہیں ختم کرسکتی۔(مشکوٰۃ) مولانا احمد علی سہارنپوری ؒمذکورہ حدیث مبارکہ کے آخری جملے کی تشریح میں لکھتے ہیں : حرام مال سے صدقہ اورانفاق گناہ ہے اور یہ اس گناہ کو نہیں مٹاسکتا جو کسب حرام سے حاصل ہوا ہے۔(مشکوٰۃ)

اکل حلال ﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی جنت تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ ہے ۔یہ دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے۔ اس سے عمر میں برکت اور مال میں بڑھوتری ہوتی ہے ۔یہ عمل دنیا کی سعادت اور آخرت میں جنت کا موجب ہے۔ اپنی محنت کی کمائی انسانی شرافت اور رفعت کا باعث ہے۔ مال حرام خواہ کم ہویا زیادہ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔