تحریر:اسرار راجہ…لوٹن ادو قومی نظریہ کیا ہےاور اس كکی بنیادکب رکھی گئی ،آج كکا مسلمان قرآن اور قرآنی تعلیمات سے ك کٹ کر طاغوتی طاقتوں ك کے شکنجےمیں ایسا جکڑا ہوا ہے كہ وہ ایک طرف مادی خداؤں اور ان کے پیروکار معاون خداؤں كکے سامنے بے بس و مجبور ہے تو دوسری جانب اللہ كکے قہروعذاب میں بھی مبتلا ہے۔ امت مسلمہ كا تصور محض تقریروں، تحریروں، جلسے جلوسوں اور سیمیناروں تک محدود ہے جبکہ عملاً اُمت درجنوں مسلکوں، عقیدوں، طبقوں، قوموں، قبیلوں، فرقوں، جماعتوں اور نظریوں میں تقسیم اسلام دشمن قوتوں كی غلامی پر مجبور ہے۔مسلکی بنیادوں پر اُمت کا اتحاد ختم ہوا تو پھر آہستہ آہستہ اسلامی ریاست ك تصور بھی منہدم ہوتا چلا گیا۔ بادشاہوں اور آمروں نے ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے علمبرداروں اور مزہب کے ٹھیکیداروں نے بھی مغربی استعمارکے سامنے ہتھیار ڈال كر لینن، سٹالن، مارکس ، میکاولی اور كوتیلیہ كے نظریات و افکار اپنانے میں ہی آفیت جانی۔ مسلمان مفکرین عہد خلافت کے بعد عہد ملوکیت میں الجھے رہے اور ملوکیتی جبرو استحصال کی وجہ سے مسلمانوں کیلئے كسی واضح حکومتی نظام كی بنیاد نہ رکھ سکتاہے ۔ اولیائے کاملین، علمائے حق اور صالحین کے مطابق اگر ایساکوئی ى نظام حکمرانی ہوتا تو اللہ خالق كل و كن خود اس كا ذکر قرآن كکریم میںکرتے۔ اگر اللہ كکی طرف سے کوئی نظام حکومت نازل ہوتا تو بھی منکرین، مشرکین، منافقین اور کفار الٰہی حکم ماننے سے انکار کر دیتے چونکہ اللہ نے روز اول سے ہی انہیں ایسا کرنے کی ڈھیل دے رکھی ہے۔ دنیا میں جب سے ریاست اور حکومت كا وجود سامنے آیا اُس کی بنیاد کسی نہ کسی نظریے، عقیدے اور سوچ پر رکھی گئی تاکہ ریاست میں بسنے والے لوگ نظریے اور عقیدے پر مبنی سوچ و فکر كو اپناتے ہوئے ریاست کی مضبوطی، خوشحالی، امن و حفاظت اور ترقی کے لیے مل کر کام کریں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نظریے اور عقیدے کے بغیر کوئی سوچ و فکر پروان نہیں چڑھ سکتی اور نہ ہی بنیادی فکر کے بغیر کوئی سوچ ، فکرو فلسفہ وجود پذیر ہوسکتا ہے۔ فرسودہ نظریہ، جاہلانہ عقیدہ اور منفی سوچ و فکر کے نتیجہ میں پروان چڑھنے والا فلسفہ کبھی فکری نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس فکر و فلسفے کی بنیادیں مضبوط اور مستقل ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ایک مستقل نظریہ حیات ہے جس کی بنیاد مثبت سوچ و فکر اور اٹل عقیدے پر استوار ہے۔ فرمان ربیّ ہے کہ ’’میرا دستور بدلتا نہیں اور میرا حکم ٹلتا نہیں‘‘ اللہ نے تخلیق کائنات کی ترکیب بیان کی اور پھر اپنی حاکمیت کا اعلان کیا تاکہ مخلوق اللہ کی حاکمیت میں امن و سلامی کی زندگی جی سکے۔دیکھا جائے تو دوقومی نظریے کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب شیطان نے اللہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ شیطان نے اللہ سےقیامت تک مہلت مانگی کہ میں تیرے بندوں کو بہکاؤں گا اور انہیں گمراہی کے راستے پر ڈال دونگا۔ اللہ نے شیطان کو قیامت تک مہلت دیتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ جو میرے بندے ہونگے وہ کبھی تمہارے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ یہی لوگ دنیا کی عارضی زندگی میں توشہ آخرت جمع کریں گے اور جنت کے حقدار ہونگے۔شیطان نے پہلا وار حضرت آدم ؑ اور حضرت حواؓ پر کیا سورہ البقرہ آیت 38,37,36 میں فرمایا "پھر ہلا دیا شیطان نے اس جگہ یعنی جنت کے اس گوشے سے جہاں اللہ نے آدمؑ اور حواؑ کو ٹھکانہ دیا تھا۔ نکالا انہیں عزت و راحت کے مقام سے جس میں وہ تھے۔ پھر ہم نے کہا اترو اس مقام سے، تم دشمن ہوگے ایک دوسے کے اور تمہارے لیے اب زمین ٹھکانہ ہے جہاں تم ایک مقرر وقت تک نفع حاصل کر سکو گے۔ پھر سیکھ لیں آدمؑ نے اپنے ربّ سے چند باتیں اور پھر اللہ متوجہ ہوا اس پر۔ بیشک اللہ ہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان"۔ آخری آیت میں فرمایا! "ہم نے حکم دیا کہ نیچے جاؤ یہاں سے تم سب اور پھر تم کو پہنچے جب میری ہدایت اور جو چلا میری ہدایت پر اسے کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی غم ہوگا"۔غور کیا جائے تو اللہ کے اس فرمان میں لاکھوں اسباق اور ہدایات پہناں ہیں اور دو قومی نظریے کی بھی یہی بنیاد ہے۔ ایک طرف اللہ کی جانب سے نازل کی جانے والی ہدایات یعنی اسلامی، الٰہی نظریہ حیات پر عمل کرنے والی جماعت جن سے اللہ نے وعدہ کیا کہ تمہارے لیے دنیا و آخرت میں کوئی غم و خوف نہیں ہوگا اور دوسری طرف وہ جماعت جو شیاطین کے بہکاوے میں آکر اللہ کا راستہ چھوڑ کر شیطانی عمل پر گامزن ہوگی۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ منکرین کے لیے دنیا کا مال و دولت اور خوشحالی تو ہے مگر آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ بیان کردہ سورہ مبارکہ میں ہی فرمان ہے کہ کفار کے لئے آخرت میں جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔دو قومی نظریےکی اصل بنیاد عقیدے کی بنا پر ہے نہ کہ کسی باطل مادی نظریے پر۔ اس کی ابتدا تخلیق آدمؑ سے ہوئی اور اس کا ارتقائی عمل قیامت تک جاری رہے گا۔ سورہ البقرہ میں ہی ذکر ہوا کہ جب شیطان نے اپنی تخلیقی برتری کا ذکر کیا تو پھر اللہ سے درخواست کی کے اے میرے ربّ مجھے قیامت تک مہلت دےمیں تیرے بندوں کو طرح طرح کا لالچ دونگا اور انہیں تیرے راستے سے ہٹاؤنگا۔ قرآن میں کئی اور مقامات کے علاوہ سورہ کہف میں فرمان الٰہی ہے کہ" اے میرے بندو جب شیطان میرے حکم سے باہر ہوگیا تو تم اس کی اور اس کی اولاد کی پیروی پر کیوں چل رہے ہو"۔ مفسرین کے مطابق رحمان اور شیطان کے دو الگ راستے، دو الگ نظریہ اور عقائد ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ عالم، مفکر اور دانشور کہلوانے والے ان نظریات و افکار کی تعریف و تشریح اپنی علمیت کی برتری، مادی لالچ اور شہرت کے حصول کے لیے کرتے ہیں اور بیچ کا راستہ نکال کر امت میں تفریق کا باعث بنتے ہیں۔ آج ہم ایسے ہی علمائے سیاست اور معیشت کی دوغلی پالیسیوں کے نتیجے میں بیچ کے راستے پر چلتے ہوئے مسلسل تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم نام تو رحمان کا لیتے ہیں مگر عمل شیطان کےنظریات کو اپناتے ہوئے کرتے ہیں۔ ہمارے دانشوروں اور فلاسفروں کا خیال ہے کہ اہل مغرب نے چرچ کی اجارہ داری ختم کی تو ان پر ترقی کی رائیں کھل گئیں۔ان کے ادارے مضبوط ہوئے اور جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ فاتح عالم بن گئے۔ ان کی کرنسیاں مضبوط اور پاسپورٹ باعزت ٹھہرے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تیسری دنیا کے ہر شہری کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ چلا جائے اور خوشحال زندگی گزار سکے۔ ہمارے دانشوروں اور فلاسفہ کا نظریہ سیکولزم ، دین بیزاری اور فرسودہ خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ دیکھا جائےتو یہ لوگ نہ تو دانشور اور فلاسفر ہیں اور نہ ہی مصلح اور ماہرین علوم ہیں۔ یہ لوگ بیچ کے راستے پر کھڑے ایسے بھکاری ہیں جن کے دونوں ہاتھوں میں کشکول ہے۔ ان ہی دانشور اور فلاسفر نما بھکاریوں کے مقلد ہمارے سیاستدان، حکمران اور اعلیٰ اشرافیہ ہے جنہیں سوائے عوام کی بیخ کنی، فرسودہ خیالی، بدعملی، ملکی خزانہ لوٹنے اور قومی عزت و اوقات نیلام کرکے بھیک مانگنے کے علاوہ کوئی ہنر نہیں آتا۔انہیں پتہ ہی نہیں کہ چرچ کی اجارہ داری اور اسلامی تعلیمات میں کیا فرق ہے۔ دین اسلام میں اجارہ داری کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ راہ ہدایت ہے۔ فرمایا" اے داؤدؑ ہم نے تمہیں دنیا میں حکمرانی عطا کی تاکہ تم لوگوں کے ساتھ عدل سے پیش آو"۔ فرمایا" میں نے قلم کے ذریعے انسان کو علم دیا جو وہ جانتا نہ تھا۔ پھر فرمایا عدل کے معاملے میں تفریق مت کرو۔ دنیا کا کونسا معاملہ ہے اور کونسا علم ہے جس کا ذکرقرآن میں نہیں۔ اللہ کی کونسی نعمت ہے جس کا بیان نہیں۔ قرآن کا ہر لفظ ہر آیت علم و حکمت کا خزانہ ہے مگر اس میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں"۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان مفکرین، اولیائے کاملین اور علمائے حق نے قرآن کی روشنی میں اللہ کی حاکمیت اس کے کمال علم و کمال حکمت کی تشریح کی کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں سب سے بہتر ہو وہ ہی مسلمانوں کا امیر ہونے کا حقدار ہے۔ چاہے وہ خلیفہ ہو، بادشاہ ہو، صدر ہو یا وزیراعظم۔ وہ عدل کرنے والا ہو، عوام الناس کا ہمدرد ہو اور بیت المال یعنی قومی خزانے کا محافظ اور ملکی امور چلانے کی مہارت رکھتا ہو۔ابن خلدون نے مسلمان امیر کی پچاس خوبیاں لکھی ہیں اور ہر خوبی کا تعلق قرآنی آیات اور احکامات الٰہی سے ہے۔ لکھتے ہیں کہ امیر کا درجہ عام انسان سے بلند ہوجائے تو وہ امارت کے درجے پر فائز نہیں رہ سکتا۔ اسے چاہیے کہ وہ خود اس عہدے سے الگ ہوجائے یا پھر وقت کا قاضی اسے معزول کردے۔ قانون کی حکمرانی سے ہی ریاست میں سیاسی، معاشی، صنعتی، تجارتی، داخلی اور خارجی استحکام پیدا ہوتا ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اور عوام خوشحال اور آسودہ حال ہوجاتے ہیں۔ اہل اور قابل لوگ ملکی اداروں کا نظام چلاتے ہیں اور حکمران طبقہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔خطبہ حج الوداع سیاسی نقطہ نظر سے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک اسلامی حکومت کن بنیادی اصولوں پر تشکیل پاتی ہے اور کس نظریے اور عقیدے کی بنا پر اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے۔ آپ ﷺکا آخری خطاب صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے ایک عالمی منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خطبہ ایک ایسے نظام کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے جس میں نوع انسانی کے لیے امن، خوشحالی، ترقی، اخوت و محبت اور برکت و فضیلت ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ آﷺؐ کا آخری خطبہ انسانیت کا ’’منشور اعظم ہے‘‘۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سوا دنیا کی دیگر اقوام نے اس منشور کو اپنایا اور خوشحالی کی منازل طے کرتے ہوئے اقوام عالم میں بلند مقام پر فائز ہوگئیں۔ سقوط بغداد کے بعد یورپ میں علم کی شمعیں روشن ہوئیں اور وہ علوم جن کی بنیاد مسلم اور عرب معلمین نے رکھی تھیں۔ انکا اجرأ یورپ میں ہوا۔ دوقومی نظریے کی برکات سے مسلمان تو کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے مگر اس نظریے کے منکرین نے مسلمانوں کے علمی و تحقیقی ورثے کو اپنا کر مسلم دنیا کے عقیدے کو مسلکیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہند میں دو قومی نظریے کی سوچ سب سے پہلے سلطان شہاب الدین غوری کے ذہن میں آئی۔ 1191ء میں تسخیر ہند کے بعد پرتھوی راج چوہان ایک بھاری لشکر لے کر سلطان کے جرنیلوں کی سرکوبی کے لیے نکلا تو سلطان غزنی کے سفر پر راستے میں ہی تھا۔ سلطان نے پرتھوی راج چوہان کے نام خط لکھا اور امن کی دعوت دیتے ہوئے موجودہ پاکستان اور بھارتی پنجاب کے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر باقی ہندوستان پر پرتھوی راج کی حکومت تسلیم کرنے کا وعدہ کیا۔( جاری ہے)