• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر ظفر فاروقی

نوجوانوں کی کثیر تعداد اگرچہ ملک سے باہر جا چکی ہے لیکن اب بھی بہت سے نوجوان پاکستان میں رہ کر اس کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ معاشی حالات کی خرابی کے باوجود ملک میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرتا جب تک اس کے اپنے نوجوان اپنے ملک میں رہنے کا انتخاب نہیں کرتے اور اپنی صلاحیتوں کو یہاں کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

اللہ کا شکر ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر، قانون دان اور سوشل سائنسز میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے ۔ یہی نوجوان ہیں جو ملکی حالات کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی رمق دمک اور چمک ان ہی کے دم سے ہے۔ یہ نوجوان حب الوطنی کے فرض کا احساس رکھتے ہیں، لیکن ساتھ وہ اپنے لیے ایک بہتر زندگی بھی چاہتے ہیں۔ 

یہ کہنا کہ ڈاکٹرز اور انجینرز ملک چھوڑ کرجا رہے ہیں، مکمل طور پر درست نہیں، کیا ہمارے اسپتال میں نوجوان ڈاکٹرز موجود نہیں اورطب کے شعبے میں آگے بڑھنے کے لئے دن رات محنت کررہے ہیں۔ A-oneگریڈ لینا آسان نہیں اور پھر انٹری ٹیسٹ پاس کرکے میڈیکل کالج میں داخلہ لینا اور وہ بھی پورے ملک میں میرٹ لسٹ میں آجانا مذاق بات نہیں۔

یہ کہنا کہ یہ وہ ہیں جن کو بیرون ملک جانے کا موقع نہیں ملا اور اگر موقع ملے تو یہ بھی ملک سے باہر چلے جائیں گے، ایسا ہرگز نہیں۔ اللہ ہمارے ملک کو شاد و آباد رکھے ہمارے نوجوانوں کو شاد و آباد رکھے ملک کی 65فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے سب کے سب تو ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ اگر نوجوانوں کی تمام آبادی ملک سے ہی باہر چلی جائے توعجیب صورت حال نہ ہوجائے گی۔ جو نوجوان اپنے ملک میں رہ کر اس کی بقا و سلامتی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، یہ اُن کا اچھا فیصلہ ہے۔ 

ینگ ڈاکٹرز کی دن رات کی تھکا دینے والی ڈیوٹیز/فرائض کبھی کسی نے سوچا کہ انہیں کتنی مراعات مل رہی ہیں، مگر آفرین ہے ان ڈاکٹرز کو جو کٹھن حالات کے باوجود اپنی خدمات ملک و قوم اور اپنے عوام کی خاطر سرانجام دے رہے ہیں ۔ ابھی دور کی بات نہیں Covid -19 میں ہمارے نوجوان ڈاکٹروں نے جس طرح دن رات ملک و قوم کو اس وبا/آفت سے نجات دلانے میں مدد کی ہے وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔نہ صرف ینگ ڈاکٹرز بلکہ ہمارے ملک کے نوجوان انجینئرز بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔

محنتی باشعور نوجوان جو دن رات کی محنت اور لگن اور جستجو کی بدولت انجینئرنگ یونی ورسٹی میں داخلہ لے کر کامیاب و کامران ہوتے ہیں ۔ یہی نوجوان ہیں جو شاہراہوں سے لے کر پلوں کی تعمیر تک بلند و بالا عمارتوں سے لے کر طب زراعت جوہری ٹکنالوجی بایو ٹکنالوجی فلکیات موسمی تغیریات کے تمام مسائل کو حل کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ ہمارے کافی نوجوان انجینئر ملک سے باہر چلے گئے ہیں، مگر ابھی بھی ملک میں قابل ہنر مند انجینئر موجود ہیں۔ جو ملک کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

مثالیں صرف ڈاکٹرز اور انجینئرز تک محدود نہیں  بلکہ زندگی کے دیگر شعبہ جات یعنی سوشل سائنسز میں بھی نوجوان اپنا لوہا منوارہے ہیں ۔ ان میں قانون فقہ منطق پبلک ایڈمنسٹریشن سوشیولوجی ادب تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔ اب تو نوجوان لڑکیاں بھی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس کے شعبہ میں نوکریاں حاصل کررہی ہیں ۔ کیا یہ مثالیں کامیابی و کامرانی کی مثالیں نہیں ہیں؟ ہم کیوں اب تک مایوسی اور بے چینی کی باتیں کررہے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں سے امید ہے بلکہ یوں کہیئے کہ نوجوان ہماری امید ہیں۔

موجودہ دور میں بہت سے نوجوانوں میں کسی حد تک منفی سوچ کے رجحانات ضرور پیدا ہوگئے ہیں، اس کی وجہ معاشی معاشرتی پہلو ہیں ۔ مگر ان تمام تر صورت حال کے باوجود ایسے بھی نوجوان ہیں جن کا کہنا ہے کہ اسی ملک میں جینا ہے یہیں مرنا ہے، قوم اپنی ہے، مٹی اس کی خوشبو اپنی ہے، لگن اپنی ہے، جذبہ اپنا ہے اپنا ملک اپنا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا استعمال اپنے ملک کے لیے کریں گے۔ 

ان کی محنت کو رنگ دینا ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ، محنتی، ہنر مند، باصلاحیت، بااخلاق اور کام یاب بنانے کے لیے حکومت مؤثر کردار ادا کرے۔ مُلکی سطح پر صنعتوں کا جال بچھائے، تاکہ نوجوانوں میں بے روز گاری ختم ہونے کے ساتھ مُلکی معیشت ترقّی کی راہ پر گام زن ہوسکے۔

تدبیر اور محنت ہر ناممکن کے حصول کا کوئی رستہ تلاش کر لیتی ہے۔ اپنے ملک میں موجود وسائل کو بروئے کار لائیں ایسے مواقع فراہم کرنا ہوں گے، جس سے وہ ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

جو نوجوان باہر جانے کا سوچ رہے ہیں وہ یہ یقین اپنے اندر پختہ کرلیں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بس اپنے دل سے مایوسی کا جنگلی پودا اُکھاڑ پھینکیں۔