• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہزاروں افراد کو قے اور دستوں کا سبب بننے والے پیٹ کے کیڑے مارنے کی ویکسین لگائی جائے گی

لندن (پی اے) سردیوں میں ہزاروں افراد کو قے اور دستوں کا سبب بننے والے پیٹ کے کیڑے مارنے کی ویکسین لگائی جائے گی، سردیوں میں پھیلنے والی یہ بیماری ہر عمر کے لوگوں میں آسانی کے ساتھ ایک سے دوسرے میں منتقل ہوجاتی ہے اور اس کے بدترین نتائج برآمد ہوتے ہیں، بعض اوقات یہ بیماری اس تیزی سے پھیلتی ہے کہ ہسپتال اس کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں ابتدا میں پوری دنیا کے6سے زیادہ ممالک میں اس ویکسین کا 60سال سے زیادہ عمر کے کم وبیش 25,000 افراد پرتجربہ کیا جائے گا۔ ریسرچرز کا کہناہے کہ اگر اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے تو ہسپتالوں میں معمر مریضوں کی تعداد میں کمی ہوجائے گی اور این ایچ ایس جیسے اداروں پر کام کے بوجھ میں کمی آئے گی، یہ ویکسین بھی موڈرینا نے تیار کی ہے اور یہ mRNA ویکسین ہے، کوویڈ کی ویکسین کی طرح یہ ویکسین بھی ہمارے امیون سسٹم کو وائرس کو پہچاننے اور اینٹی باڈیز تیار کر کے اس کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی۔ ڈاکٹر پیٹرک مور کا کہنا ہے کہ نورو وائرس کے حوالے سے مشکل یہ ہے کہ اس کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ساخت میں تبدیلی پیدا کرلیتا ہے، اس لئے اس ویکسین میں بہترین نتائج حاصل کرنے کیلئے وائرس کے 3اقسام سے مزاحمت کی دوائیں شامل کی گئی ہیں، تاہم ابھی تک یہ تعین نہیں کیا جاسکا کہ اس ویکسین کا اثر کتنے عرصے یا دیر تک قائم رہے گا اور کتنے عرصے بعد ویکسین دوبارہ لگوانا پڑے گی، ان تمام باتوں کے جواب تجرباتی طورپر ویکسین لگانے کے بعد ہی مل سکیں گے۔ انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں این ایچ ایس کے زیرانتظام 27 ہسپتالوں میں تجرباتی طورپر یہ ویکسین لگائی جائیں گی۔ ریسرچرز اس ویکسین کے سائیڈ افیکٹس کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں، برطانیہ میں مورو وائرس کے اثرات بہت نمایاں ہیں اور اس کی وجہ سے ہر سال انسانی زندگیاں ضائع ہوتی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق سردیوں میں پھیلنے والی یہ بیماری ہر عمر کے لوگوں میں آسانی کے ساتھ ایک سے دوسرے میں منتقل ہوجاتی ہے، برطانیہ میں ہر سال کم وبیش 4 ملین افراد اس وائرس کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے کم وبیش12,000 افراد کو ہسپتالوں میں داخل کرانا پڑتا ہے، جن میں سے 80افراد موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں اور اس سے ہر سال این ایچ ایس کو کم وبیش 100 ملین پونڈ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس وائرس سے عام طورپر کمزور معمر افراد اورکیئر ہوم میں قیام پذیر لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن ہیلتھ ورکرز، بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے، فلائٹ اٹنڈنٹس اور تفریحی جہاز کے مسافر اور ملازمین بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ نورو وائرس کا شکار ہونے والوں کو پانی اور مائع اشیا کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے، اس سے جسم میں پانی کی کمی نہیں ہونے پاتی۔ پروفیسر ساؤل فاؤسٹ کا کہنا ہے کہ تجرباتی اسکیم کے دوران موبائل یونٹ استعمال کئے جائیں گے تاکہ ریسرچرز کیئر ہومز تک جاکر لوگوں کو ویکسین لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے بچوں کو بھی تحفظ ملے گا، اس کے ساتھ ہی ریسرچرز یہ معلوم کرنے کیلئے ویکسین سے نورو وائرس سے متاثرہ مریضوں کو ہونے والے فائدے کے حوالے سے ڈیٹا جمع کرنے پربھی توجہ دے رہے ہیں، بعد ازاں یہ ڈیٹا برطانیہ کے ریگولیٹر کو بھیجا جائے گا، جو اس ویکسین کی منظوری دے گا۔ برطانیہ قے اور دستوں کا سبب بننے والے اس جرثومے یا وائرس کے خلا ف ویکسین تیار کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
یورپ سے سے مزید