• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
حکمران کلاس پاکستان میں 26ویں ترمیم کو اپنی بڑی کامیاب قرار دے رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ گویا اسٹبلشمنٹ سمیت سب نے بہت سکھ کا سانس لیا ہے کیونکہ عدلیہ کے سیاسی Activism نے سب کو کئی برسوں سے خاصا پریشان کر رکھا تھا۔ البتہ حکمران طبقے کے مسائل پتہ نہیں اس سب کچھ کرنے کے باوجود حل ہو گئے ہیں یا ابھی یہ مسائل سے ٹکرانے کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس پر ذرا بعد میں بات کرتے ہیں اس لئے کہ مجھے تو فقط ان اقدامات سے غرض ہے جو حقیقی معنوں میں عام آدمی یا عوام کے مسائل کا کوئی حل دے کیونکہ یہ تمام اقدامات تو حکومت کی چھینا جھپٹی میں اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے اطوار اور اقدام ہیں۔ بالائی طبقے یا حکمران طبقے کے ایسے اقدامات کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہے بلکہ ایسی لڑایاں تو پاکستان نے نو آبادیاتی نظام ہی سے وراثت میں لی ہیں۔ ریاست پاکستان کے تمام ادارے استعماری ڈھانچہ اور استعماری مزاج رکھتے ہیں جس میں عوام کو ثانوی ہی نہیں بلکہ کسی نچلے درجے کی حیثیت حاصل ہے۔ میں ان چھبیس ویں ترمیم کے قانونی نکات پر بحث میں نہیں الجھنا چاہتا ان میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تاریخی طور پر گزشتہ سات، آٹھ دہائیوں میں جو بھی آئین سازی کے کام ہوئے یا قانون سازی ہوئی اس میں سے اتنے طویل عرصے میں کبھی بھی عوام کا بھلا برآمد نہیں ہو سکا بلکہ عوام مسلسل اپنا خون نچوڑ نچوڑ کے اس بالائی طبقے یا حکمران طبقے کی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔ موجودہ آئینی ترمیم بھی محض عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ملک کو اصل میں چلانے کا حقدار کون ہے کس کے مسل muscles مضبوط اور مقتدر رہنے کے حقدار ہیں۔ 1947 کے بعد سے لیکر مسلسل قبائلی ہیڈز کی طرح مٹھی بھر لوگ ہی خود کو اقتدار پر براجمان دیکھنا چاہتےہیں یا تو وہ خود براہ راست اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں یا پھر مخصوص نوآبادیاتی انداز میں اپنے لوگوں کو اقتدار پر بٹھا دیتے ہیں۔ برطانوی سامراجی دور بھی واضح طور پر اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ادارے سامراجی مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں اور عوام ان کے خلاف جدوجہد کرتے اوراپنے حقوق مانگتے نظر آتے ہیں۔ آج بھی بیوروکریسی ہو یا عدلیہ یا پھرفوج کاادارہ ہوسب دراصل ملازمت پیشہ لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں جہاں اعلیٰ عہدے کی حصول کی کوشش یا ملازمت میں طوالت یا توسیع کی کوشش ایک جہد مسلسل کی طرح نظر آتی ہے۔ ان کا عوام کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ اپنے عہدے کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات لینا ہوتا ہے۔ ہم نے عدالتوں کو آمریتوں کو دوام بخشتے اور آئینی کور دیتے دیکھا ہے۔ پاکستان کے اوپر دو طرح کی آمریتیں مسلط ہوتی رہی ہے ایک وہ جہاں آمرگن پوائنٹ پر تخت پر بیٹھتا ہے ۔ دوسرے وہ جہاں آمربندوق والوں کی پشت پناہی پر اپنی آمریت کا ڈنڈا چلاتا ہے۔ اس سے یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک طرف تو ادارے سویلین راج کے خلاف نبردآزما رہتے ہیں۔ جس کا مقصد عوام کو سیاسی حصہ دینے سے دور رکھنا ہے۔ دوسری طرف اداروں کی اپنی لڑائی بھی دوسرے اداروں پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے لئے جاری رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سویلین ہمیشہ مقدمات کا سامنا کرتے رہتےہیں اور ان اداروں کی کوئی پوچھ پڑت نہیں ہوتی۔ اب 2018 سے لیکر آج تک دونوں سویلین دور ہائی برڈ ادوار ہیں جہاں طاقت کا اصل سرچشمہ اسٹبلشمنٹ ہے اور ان سویلین پارٹیوں کی کوشش رہتی ہے کہ دو اداروں میں سے ایک کم از کم ان کے پیچھے سیاسی پارٹی کی طرح کھڑا ہو۔ 2018 میں سویلین حکومت، فوج اور عدلیہ تینوں ایک پیج پر رہتے ہوئے 25 کروڑ عوام کو حب الوطنی کی افیون دیتے رہے۔ پھر جب ایک کا اقتدار ختم ہواتو اس نے فوجی پشت پناہی کے حصول کے لئے عدلیہ میں اپنا حلقہ بنائے رکھا اور عدلیہ اسے تحفظ دیتی دہی اور عدلیہ اور اسٹبلمشنٹ میں کچھاؤ بڑھ گیا۔ اسٹبلشمنٹ جو کرنا چاہتی تھی عدلیہ اس کی راہ میں روڑے اٹکاتی۔ بالاخر موجودہ حکومت نے اپنے اتحادی ملا کر آئین کو ہی ترمیم کے لئے راہ ہموار کرلی۔ جس سے عدلیہ کا تھوڑا ڈنگ نکالنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن اس سب کچھ سے دراصل کونسال طبقہ مستفید ہوگا یہ ہمارا اہم سوال ہے جس کا جواب مختصراً یہی ہے کہ اس سب آئینی کھیل کھلواڑ میں حکمران طبقہ تو جشن مناتا نظر آئے گا خواہ وہ اتحادی حکومت کا حصہ ہو یاپی ٹی آئی کا البتہ اس سب کچھ میں لوئرمڈل کلاس اور نچلے طبقے کے 80 فیصد عوام کے مسائل کے حل کے لئے کچھ نہیں ہے اور عوام کولونیل ماسٹرز کے طرز پر اسی طرح ہانکے جاتے رہیں گے۔ باقی آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید