اسلام آباد (فخر درانی) کیا جسٹس (ر) اعجاز الاحسن کی شریف خاندان سے کوئی ذاتی رنجش تھی، جیسا کہ ان کے فیصلوں اور ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے؟
دی نیوز نے دو ایسے واقعات اور تفصیلات کا پتہ لگایا ہے جن کی وجہ سے ریٹائرڈ جج کی شریف فیملی کے ساتھ رنجش کو بڑھاوا ملا ہو اور شاید انہیں واقعات کی وجہ سے ریٹائرڈ جج کی رائے اور فیصلے بھی متاثر ہوئے ہوں۔
جسٹس (ر) اعجاز الاحسن کی شریف فیملی کے خلاف مبینہ رنجش کے پیچھے ایک واقعہ تقریباً 25 سال قبل پیش آیا، جبکہ دوسرا جاری مسئلہ ان کی ناراضی کو ہوا دیتا رہا۔
ملک کا آئین ججز سے اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہیں اور کسی کے متعلق ناپسندیدگی کا جذبہ نہ رکھیں، یہی بات ججز کے حلف میں بھی شامل ہے۔
سابق جج کی شریف خاندان کے ساتھ رنجش کا تعلق اوّل الذکر کے بڑے بھائی میجر (ر) اظہار الاحسن سے جڑا ہے، پاکستان اسٹیل میلٹرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے والے اظہار الاحسن کو ایسوسی ایشن کی سفارش پر لاہور میں اتفاق فاؤنڈری میں مارکیٹنگ کا سربراہ مقرر کیا گیا، تاہم 1990ء کی دہائی کے آخر میں جب نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نے اتفاق فاؤنڈری کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے اظہار الاحسن سمیت سینئر مینجمنٹ ٹیم کی کارکردگی (جو اوسط سے کم تھی) کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں فوراً برطرف کر دیا، برطرفی سے قبل وہ شاہانہ مراعات اور تنخواہ لے رہے تھے۔
2013-14ء میں اظہار الاحسن کچھ تاجروں کے ہمراہ سعودی عرب میں شریف فیملی کی اسٹیل مل کے دورے پر پہنچے اور پیشگی نوٹس یا ملاقات کی اطلاع کے بغیر حسین نواز کے دفتر میں داخل ہو گئے۔
حسین نواز نے سرد مہری سے اظہار الاحسن اور ان کے وفد کو یاد دلایا کہ آنے سے پہلے انہیں اطلاع کرنا چاہیے تھی، مبینہ طور پر اس بات نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا اور اس طرح جسٹس اعجاز الاحسن اور شریف فیملی کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ ایک اور جاری معاملہ یہ ہے کہ سابق جج ماڈل ٹاؤن لاہور میں شریف فیملی کے پڑوسی ہیں، 2008ء سے جب شریف فیملی پنجاب میں برسر اقتدار تھی تو ان کی مشترکہ گلی میں سیکیورٹی رکاوٹیں اور پروٹوکول ہائی الرٹ رہا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مبینہ طور پر لاہور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ میں خدمات انجام دیتے ہوئے ان رکاوٹوں پر اپنے افسوس کا اظہار کیا تھا۔
اس صورتِحال نے ریٹائرڈ جج کی شریف فیملی کے لیے ناراضی میں اضافہ کیا کیونکہ ان کے روزمرہ کے معمولات میں یہ سیکیورٹی اقدامات ایک مستقل تکلیف بن گئے تھے۔
2018ء میں شریف فیملی جب اقتدار سے محروم ہوئی تو جسٹس (ر) اعجاز الاحسن نے ان کے گھر کے اردگرد تمام حفاظتی رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا اور بین السطور بات سمجھانے کے لیے انہوں نے وہی رکاوٹیں اپنی رہائش گاہ پر لگوائیں، جہاں یہ رکاوٹیں عمران خان کے اقتدار میں آنے تک موجود رہیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی کے مسائل اور جسٹس اعجاز الاحسن کے بھائی کو پرتعیش عہدے سے برطرف کرنے کے واقعات نے شریف خاندان کی جانب ان کی ناراضی کو ہوا دی، یہ رنجش ان کے ریمارکس اور احکامات میں واضح نظر آتی تھی۔
جن لوگوں نے 2017ء میں شریف فیملی کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا تھا وہ ان ذاتی رنجشوں کو جانتے تھے اور یہی وجہ تھی پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں انہوں نے جسٹس اعجاز کی شمولیت کو یقینی بنایا۔
پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن کو احتساب عدالت میں شریف خاندان کے ٹرائل کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ جج مقرر کیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کی جانب ان کا غصہ ان کے اقدامات سے واضح تھا کیونکہ وہ اس کیس پر کام کرنے والے نیب حکام کو اکثر طلب کرتے تھے۔
انہوں نے رہنمائی کی کہ ریفرنسز کیسے دائر کیے جائیں اور شریف فیملی کے خلاف کیا ثبوت پیش کیے جائیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شریف فیملی کو احتساب عدالت سے زیادہ سے زیادہ سزا ملے۔
دی نیوز نے 15 اکتوبر کو جسٹس (ر) اعجاز الاحسن کو ایک تفصیلی سوالنامہ بھیجا، اگرچہ انہوں نے واٹس ایپ پر بھیجا جانے والا پیغام پڑھا لیکن جواب نہ دیا۔
متعدد یاد دہانیوں اور تقریباً 2 ہفتے گزرنے کے باوجود انہوں نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔