غزہ میں جاری جنگ کے دوران سخت سردی میں سمندر کنارے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور بے گھر فلسطینی گرم کپڑے خود سینے لگے۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 31 سالہ ندا عطیہ کی نگرانی میں ’نیڈل اینڈ تھریڈز‘ نامی ایک ٹیم غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے خان یونس میں المواسی کے ساحل کے قریب ایک خیمے میں کپڑے سلائی کرنے کا کام کر رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالتِ جنگ میں بنیادی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے سارا کام ہاتھوں سے ہی کیا جا رہا جو کہ بہت محنت طلب ہے۔
رپورٹ کے مطابق بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سلائی مشین کو سائیکل کے پیڈل کی مدد سے چلا کر کپڑے سلائی کیے جا رہے ہیں۔
ندا عطیہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ جنگ کے آغاز کے بعد اب دوسری بار موسمِ سرما آ رہا ہے اور لوگوں کے پاس گرم کپڑے نہیں ہیں۔
اُنہوں نے بتایا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں غزہ میں کپڑے نہیں آ رہے ہیں اس لیے ہم نے بہت سوچا کہ ہم گرم کپڑوں کی کمی کے مسئلے کیسے حل کر سکتے ہیں تو اچانک خیال آیا کہ کمبل سے گرم کپڑے بنا سکتے ہیں۔
ندا عطیہ نے بتایا کہ ان کی ٹیم’نیڈل اینڈ تھریڈز‘ رضاکارانہ طور پر کام کر رہی ہے لیکن ہم کچھ افراد کو معمولی معاوضہ بھی دے رہے ہیں۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے تیار کیے ہوئے کپڑے 70 سے 120 شیکلز یعنی 18 سے 30 امریکی ڈالرز میں فروخت ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی کمبل خود فراہم کرے تو اس کے لیے قیمت کم کر دیتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بہت اہم ہے کہ غزہ میں موسمِ سرما کے دوران بہت زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے، ہوائیں بھی تیز چلتی اور بارشیں بھی ہوتی ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال غزہ میں شدید بارشوں کے باعث کچھ پناہ گاہوں میں مقیم بے گھر فلسطینیوں کو سیلابی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔