لندن (پی اے) ایک شادی شدہ جوڑے نے اسٹیم سیل ڈونر بننے اور کینسر کے دو مختلف مریضوں کو لائف لائن پیش کرنے کے لئے عطیہ کیا ہے۔ نیرو اور کنن چوکشی کو لیوکیمیا کے بالغ مریضوں کو ممکنہ طور پر جان بچانے والے ٹرانسپلانٹس کے لئے اسٹیم سیلز عطیہ کرنے کے لئے الگ سے بلایا گیا۔ این ایچ ایس ٹیم سیل ڈونر رجسٹری میں سائن اپ کئے گئے لوگوں کو 2000میں سے ایک کو عطیہ کے لئے بلایا جاتا ہے۔ این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ (این ایچ ایس بی ٹی) نے کہا کہ چالیس لاکھ میں سے ایک کو یہ موقع ملتا ہے کہ شادی شدہ جوڑے دونوں کو عطیہ کرنے کے لئے بلایا جائے۔ مسٹر چوکشی نے 2016میں اسٹیم سیل ڈونر بننے کے لئے سائن اپ کیا اور 2018 میں عطیہ کیا۔ ان کا تجربہ دیکھنے کے بعد ان کی اہلیہ نے سائن اپ کیا اور 2024میں عطیہ کیا۔ یہ جوڑا ہندوستان میں پیدا ہوا تھا اور اب اپنے دو بچوں شیوین 15اور سیا 11کے ساتھ مغربی لندن کے شہر ہنسلو میں رہتا ہے۔ اب وہ ایشیائی ورثے کے دوسرے لوگوں سے رجسٹری میں سائن اپ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ مکینیکل انجینئر مسٹر چوکشی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کمیونٹی میں بہت زیادہ خوف ہے کہ سٹیم سیل کا عطیہ تکلیف دہ یا مشکل ہوگا یا ان کی طبیعت خراب ہو جائے گی لیکن میں اپنے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ کسی کی زندگی کو بچانے یا بہتر کرنے کے لئے یہ تکلیف کا ایک مختصر لمحہ ہے، آپ کے پاس واحد موقع ہو سکتا ہے اور اس سے بہتر احساس اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ نے نہ صرف وصول کنندہ بلکہ ان کے دوستوں اور خاندان والوں کے لئے بھی اتنا بڑا فرق کیا ہے۔ 43 سالہ چوکشی نے مزید کہا کہ کنن اور میں امید کرتے ہیں کہ اس بات کو پھیلاتے رہیں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سائن اپ کرنے کی طرف راغب کریں گے، آپ بہترین میچ ہوسکتے ہیں، جس کی کسی کو ضرورت ہے مسز چوکشی ایک 44سالہ اسکول لنچ ٹائم سپروائزر نے مزید کہا کہ جب نیرو نے کہا کہ اسے کسی کے لئے میچ کے طور پر منتخب کیا گیا ہے اور وہ اپنے اسٹیم سیلز عطیہ کرے گا تو مجھے خوف معلوم ہوا، میں نے سوچا کہ یہ تکلیف دہ ہوگا اور وہ بیمار ہو جائیں گے لیکن پورا تجربہ میری توقع کے مطابق کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ اتنا آسان عمل تھا جو کسی کی زندگی میں اتنا بڑا فرق لا سکتا ہے، اس لئے جب نیرو نے مجھے بھی سائن اپ کرنے کا مشورہ دیا تو میں نے ایسا کیا۔ مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ ہم دونوں کا عطیہ 40 لاکھ میں سے ایک موقع تھا اور مجھے واقعی ہم دونوں پر فخر ہے، ہم سب کو خاص طور پر جنوبی ایشیائی ورثے والوں کو رجسٹر میں سائن اپ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک کامیاب اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے لئے، عطیہ دہندگان اور وصول کنندہ دونوں کو ٹشو کی قسموں کی مماثلت کی ضرورت ہوتی ہے، جسے ایچ ایل اے قسم کے نام سے جانا جاتا ہے اور مریضوں کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ اسی طرح کے نسلی ورثے کے عطیہ دہندگان سے مماثل ہوں این ایچ ایس بی ٹی نے کہا کہ رجسٹر پر مناسب ممکنہ عطیہ دہندگان کی کمی کی وجہ سے ایشیائی، سیاہ فام اور مخلوط نسلی پس منظر کے مریضوں کے لئے مناسب میچ تلاش کرنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ این ایچ ایس بی ٹی کے سٹیم سیل عطیہ اور ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ گائے پارکس نے کہا کہ ہم فی الحال ہر سال 200سے 300عطیات فراہم کرتے ہیں لیکن زیادہ سے زیادہ لوگوں کیلئے کامل ممکنہ طور پر زندگی بچانے والا ٹرانسپلانٹ تلاش کرنے کے لئے ہمیں ایشیائی یا سیاہ فام لوگوں کی ضرورت ہے۔