امریکا میں قبل از وقت انتخابات کے اختتام کے بعد ٹیکساس میں مسلمانوں کی ووٹنگ کا رجحان محدود نظر آیا ہے، مسلمانوں کی اکثریت اب بھی ووٹ دینے کے معاملے میں بے یقینی کا شکار ہے۔
مقامی مسلم تنظیمیں اور سیاسی شخصیات مسلمانوں کو گھروں سے نکالنے اور ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں ٹیکساس کی اسمبلی کے لیے 2 مسلم امیدواروں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی اور وہ اب بھی کامیابی کی راہ پر گامزن ہیں۔
ڈیلس کی مسلمان کمیونٹی سے کی گئی گفتگو سے معلوم ہوا کہ صدارتی انتخابات سے متعلق خیالات میں تقسیم واضح ہے۔
بیشتر مسلمان اس بار ووٹ ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں، یا ان کا جھکاؤ ڈونلڈ ٹرمپ اور تھرڈ پارٹی امیدواروں کی جانب ہے، خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں کی بڑی تعداد غزہ میں ہونے والے واقعات کا ذمے دار بائیڈن انتظامیہ کو سمجھتی ہے، جس کے نتیجے میں ان میں بڑی حد تک ناپسندیدگی پائی جاتی ہے، ان کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو وہ کم از کم مسلمانوں کو اس جنگی تنازع سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جس کا انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ بھی کیا ہے، نوجوان طبقے کو امید ہے کہ ٹرمپ معاشی اصلاحات لے کر آئیں گے جس سے ملک میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ کیا 5 نومبر کو مسلم ووٹر گھروں سے نکل کر اپنا ووٹ کاسٹ کر کے اس تبدیلی کے عمل میں حصہ لیتے ہیں یا احتجاجاً اس عمل کا حصہ نہیں بنتے۔
اس ضمن میں نمائندہ جیو، جنگ کی جانب سے رابطہ کرنے پر مقامی مسلمان کمیونٹی کے اراکین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
محمد جعفر کا کہنا ہے کہ اگر کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کا موازنہ کریں تو دونوں مسائل لائیں گے، مگر ٹرمپ جنگ پر اتنا زور نہیں دیں گے جتنا موجودہ انتظامیہ دے رہی ہے۔
ان کے مطابق ٹرمپ کی حکومت میں مسلمانوں کے مسائل میں کمی کے امکانات ہیں، پہلے ٹرمپ کی نسل پرستی پر کھلی پالیسی تھی، مگر اب شاید وہ مسلمانوں کے لیے کچھ نرم گوشہ رکھتے ہیں، مسلسل ڈیمو کریٹک حکومت مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر مزید مشکلات کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے اس بار ٹرمپ کو ووٹ دینا چاہیے۔
سید محمد رافع کا کہنا ہے کہ نسل پرستی تو ہر جگہ ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ کون مسلمانوں کو سپورٹ کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا ماضی اور ان کی آئیڈیالوجی تو واضح ہے، مگر ہمیں ایسے نمائندوں کو سپورٹ کرنا چاہیے جو کھل کر مسلمانوں کے لیے بات کریں اور ان کی فلاح کے لیے اقدامات کریں۔
عامر گیلانی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی موجودگی میں کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے سلوک کی سزا ملنی چاہیے اور ٹرمپ کی پالیسیز امریکا کی بہتری کے لیے زیادہ کارگر ہو سکتی ہیں۔
عامر گیلانی نے کہا کہ ٹرمپ نے کورونا میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، ان کی پالیسیز ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں بہتر ہیں، مجھے امید ہے کہ ٹرمپ کی حالیہ سوچ اور تجربات مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائیں گے۔
عمران احمد کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی حکومت میں امن اور سکون رہتا ہے، جنگوں پر اتنا زور نہیں دیا جاتا جبکہ ڈیموکریٹس کے آنے کے بعد فلسطین سمیت کئی جگہوں پر جنگیں چل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے جیتنے سے امریکا اور دنیا میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی اور معیشت بھی بہتر ہو گی، نسل پرستی تو ہر جگہ ہوتی ہے، مگر یہ امریکا کے لیے اتنا مسئلہ نہیں ہے۔
عمران احمد نے ٹرمپ کو ووٹ دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
سراج کوچن والا کے مطابق ٹرمپ معیشت کے لیے بہتر ہیں، اگرچہ ان کے آنے سے نسل پرستی میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے، مگر وہ مسلمانوں کے حق میں زیادہ نرم مؤقف رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم پہلے ڈیمو کریٹ کے حمایتی تھے، مگر اب ریپبلکن کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک پاکستانی مسلمان خاتون کا کہنا ہے کہ انہوں نے تھرڈ پارٹی کو ووٹ دیا ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ٹیکساس میں ریپبلکنز ہی جیتیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ یا کملا کوئی بھی آئے، ان کے فیصلے سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ لوگ اکثر مسلمانوں کے لیے کچھ خاص نہیں کرتے۔
انیس کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے ماضی کی وجہ سے ان کے آنے سے نسل پرستی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ مسلمانوں کے قریب آ رہے ہیں، یہ محض ان کی الیکشن کے حوالے سے حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔
انیس نے مسلمانوں کو اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے اور الیکشن میں حصہ لینے کی تاکید کی ہے۔
ڈیلس کی رہائشی صبا چوہدری نے کہا ہے کہ 2015ء میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث مشکلات سے گزرے ہیں تاہم اگر ٹرمپ واقعی جنگیں روکنے کی بات پر قائم رہتے ہیں تو یہ مسلمانوں کے لیے مثبت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ان امیدواروں کو ووٹ دینا چاہیے جو مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔
صبا چوہدری نے کہا کہ مجھے ٹرمپ پر اعتماد نہیں اور میرا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو خود اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔
محمد عدنان کا کہنا ہے کہ نسل پرستی امریکا میں تو ہے ہی مگر ٹرمپ کے آنے سے شاید اس کے حامی مضبوط ہوں، ان کے مطابق، آج کل کے ڈائیلاگ اور بین الثقافتی تعلقات کی وجہ سے نسل پرستی میں کمی کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو موجودہ حکومت کو پیغام دینا چاہیے کہ انہیں نظر انداز نہ کرے اور ان کے ووٹ کی اہمیت کو سمجھے۔
رئیسہ کا کہنا ہے کہ نسل پرستی تو یہاں پہلے سے موجود ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتے گا، ہم یہ چاہتے ہیں کہ چاہے ٹرمپ ہو یا کملا ہیرس، مسلم کمیونٹی کو اہمیت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی آواز کو ووٹ کے ذریعے بلند کریں۔
سلطان بیگ نے کہا ہے کہ میں ٹرمپ کے بارے میں حتمی رائے نہیں دے سکتا، مگر مجھے امید ہے کہ جو بھی ہو، وہ مسلمانوں کے حق میں بہتر ثابت ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ نسل پرستی تو یہاں ہمیشہ سے موجود رہی ہے، مختلف ریاستوں میں اس کے مختلف اثرات ہیں، مثال کے طور پر ٹیکساس میں یہ زیادہ محسوس ہوتی ہے جبکہ نیویارک میں کم، اس کا اصل اثر انتخابات کے بعد ہی واضح ہو گا۔
فاروق خان کا کہنا ہے کہ میں ایرونگ کا رہائشی ہوں، میرے خیال میں مسلمانوں کو کمیونٹی کو بیلنس رکھنے کے لیے 2 بڑی پارٹیوں میں سے ایک کو ووٹ دینا چاہیے، کیونکہ چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد سے خاص فائدہ نہیں ہوتا، ہم مارجن میں رہ جاتے ہیں، جہاں تک نسل پرستی کا معاملہ ہے تو یہ ہمیشہ یہاں رہی ہے اور مسلمانوں کے خلاف 2001ء سے یہ چیز جاری ہے، اس سے پہلے یہاں کے حالات کافی اچھے تھے، اسکولوں میں اسلام کے متعلق بات کی جاتی تھی اور مقامی امریکی اسلام کے بنیادی ارکان کے بارے میں جانتے تھے،2001ء کے بعد میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف شدید منفی تاثر پیدا کیا، جبکہ مقامی امریکی بذات خود ہمارے خلاف نہیں ہیں، اس لیے ہمیں اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور اپنی مساجد میں مدعو کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کے قریب آنے سے بھی اچھا تاثر پیدا ہوا ہے، نسل پرستی کا مسئلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے زیادہ نہیں بڑھے گا، ان کی پالیسی زیادہ تر میکسیکن اور جنوبی امریکی ممالک کے لوگوں کے خلاف ہے، اگر معیشت بہتر ہو تو یہ سب معاملات بھی بہتر ہو جائیں گے۔
رحیم سراج کا کہنا ہے کہ دونوں امیدوار ایک جیسے ہی ہیں، مگر میں اس امیدوار کو ووٹ دوں گا جس کی معاشی پالیسیاں زیادہ بہتر ہوں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلے کی طرح آگے نکلیں گے، اگر وہ اس بار منتخب ہو گئے تو ان سے زیادہ دور کی توقع نہیں ہے، اگر وہ ہار گئے تو لوگ تھوڑے عرصے کے لیے بے چین ہوں گے، مگر سب کچھ جلد نارمل ہو جائے گا۔