نیویارک (تجزیہ / عظیم ایم میاں) 78؍سالہ ڈونالڈٹرمپ ایک بار پھر صدارتی انتخاب جیت کر امریکا کے 47؍ ویں اور طاقت ور منتخب صدر کے طور پر واپس لوٹے ہیں گو کہ ابھی بعض ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی ابھی مکمل ہونا باقی ہے جبکہ ہر امریکی ریاست کی جانب سے سرکاری طور پر نتائج کو مرتب کرکے سرکاری اعلانات کی رسم بھی باقی ہے لیکن اس کے باوجود نہ صرف امریکاکے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ووٹرز سے لیکرامریکی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ تک سب ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت اور واپسی کو تسلیم کرنے پرآمادہ نظر آتے ہیں۔ امریکی سینیٹ میں اکثریت۔ ایوان نمائندگان میں موافق توازن۔ ہم خیال عدالتی رجحانات ۔ ٹرمپ کو اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے میں کوئی روکاوٹ نہیں، گو کہ منتخب صدر ٹرمپ کو عہدہ صدارت کا حلف لینے اور چارج لینے میں 20؍ جنوری 2025ء تک 75؍ دن باقی ہیں لیکن ٹرمپ کی جیت کااعلان ہوتے ہی امریکا کی سیاست، معیشت اور ماحول نے اپنا فوری ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیا ہے بلکہ عالمی مالیاتی منڈیوں اور عالمی قائدین نے بھی مبارکبادیوں اور مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یورپ، ایشیا، مشرق وسطی، روس اور چین سمیت دنیا خودکو صدر ٹرمپ کی پالیسیوں اور خیالات سے ڈیل کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ فلسطین، لبنان، ایران اور اسرائیل کے مابین جنگی صورتحال کے بارے میں اب ٹرمپ سے توقعات وابستہ ہوگئی ہیں کہ اگر ٹرمپ جنگیں نہیں چاہتے تو اسرائل کی جاری جنگ اور انسانی تباہی کو رکوانے کیلئے ٹرمپ فوری طور پر کوئی قدم اٹھائیں گے یا وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے نام پراسرائیل کومزید تباہی پھیلانے اور جنگ کے مقاصد حاصل کرنے کی مہلت 20؍ جنوری 2025ء تک دینے کیراہ اختیار کریں گے تاکہ اسرائیل اپنے جنگی مقاصد کو مکمل طور پرحاصل کرلے۔ اپنی جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے عربوں، مسلمانوں، سیاہ فام اور دیگر امریکی اقلیتوں کا نام لیکر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہےکہ وہ اس مرتبہ خود کو بلاامتیاز نسل،رنگ و مذہب تمام امریکی شہریوں اور اقلیتوں کا صدر کہلانا اور تسلیم کرانا پسندکریں گے۔ ابھی تک کے اعداد وشمار کے مطابق ڈونالڈ ٹرمپ نے پاپولر یعنی عوامی ووٹ بھی اپنی ڈیموکریٹ حریف سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں بلکہ تمام سروے، پول، تجزیوں اور پیشگوئیوں کی حدود سے بڑھ کر اپنی مقبولیت اور پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹرمپ اور کملا مقابلہ واقعی سخت تھا۔ ٹرمپ کے حامی اوردنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کے 130؍ ملین ڈالرز کی حمایت اور ٹرمپ کے ساتھ مہم میں شرکت کے ساتھ ساتھ امریکا کی کنزرویٹو ریاستوں میں ووٹرز کی واضح اکثریت نے ٹرمپ کی حمایت نے مرکزی رول ادا کیا۔ سن بیلٹ اور ’’سونگ اسٹیٹس‘‘ میں انتخابی لڑائی میں بھی بڑی ریاستوں میںٹرمپ نے فائدہ اٹھایا اور اب وہ امریکا کے منتخب صدر ہیں۔ اب وہ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن اکثریت اور ایوان نمائندگان میں تاحال بہتر صورتحال کے تناظر میں نہ صرف ایک طاقت ور اور با اختیار صدر ہوں گے بلکہ سپریم کورٹ میںبھی اپنی سابقہ صدارت کے دور میں ججوں کی تقرری اور تبدیلیوں سے وہ اپنے ہم خیال کنزرویٹو رجحانات کے حامل ججوںمیں اضافہ کررکھا ہے لہٰذا دو مرتبہ امریکی صدرمنتخب ہونے و الے ڈونالڈ ٹرمپ کے پاس اپنے تمام وعدوں اور ایجنڈے پر قانون سازی کرنے، نافذ کرنے اور عمل کرنے کیلئے تمام تر اختیار اور ماحول حاصل ہے دیکھنا یہ ہے کہ 78؍ سالہ ڈونالڈ ٹرمپ 6؍ نومبر سے 20؍ جنوری تک کیا رول ادا کرتے ہیں اور حلف اٹھانے اور چارج سنبھالنے کے بعد کس کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔