اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی جائزہ) ترقی پذیر ممالک میں سپر پاور کے صدر کو اختیارات کا سپرمین سمجھنا درست نہیں،یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وہ اوول آفس سے فون کرکے دوسرے ملک میں جیل کے قیدی کو رہا کراسکتا ہے۔ دنیا کی سپرپاور امریکہ کے صدر کو بھی طاقت اور اختیارات کے حوالے سے سپرمین سمجھنے کا تاثر پایا جاتا ہے اور عام طور پر بالخصوص ترقی پذیر اور معاشی طور پر کم تر ممالک میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وائٹ ہائوس کا مکین اوول آفس میں بیٹھ کر امریکی صدر کی حیثیت سے ہر معاملے میں قطعی طور پر خودمختار ہوتا ہے اور جو چاہے کر سکتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ بعض امور میں امریکی صدر کی حیثیت بھی Ceremonial (نمائشی) ہوتی ہے۔ اس کے اختیارات محدود بھی ہیں اور کئی حکومتی ادارے ان کے اختیارات کے شراکت دار بھی جن کی مشاورت اور شراکت کے بغیر وہ تن تنہا فیصلے نہیں کرسکتے۔ تاہم اگر پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طاقت کو پاکستان تحریک انصاف کی توقعات جس کی امیدیں وہ عرصے سے لگائے بیٹھے ہیں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ تاثر دیئے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ بس اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس سے ایک فون کرنا ہے اور پاکستان کی جیل سے قیدی نمبر804 کی رہائی کے احکامات ہنگامی طور پر جاری ہوجائیں گے اور انہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ بنی گالہ پہنچا دیا جائے گا۔ پھر پورے ملک میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے اور ان کے اس فیصلے پر جشن شروع ہو جائے گا اور انتخابات کے اعلان کئے جانے کے بعد ختم ہوگا لیکن کھلی آنکھوں سے دیکھے جانے والے تعبیر سے عاری اس خواب کی کوئی صبح نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین نے آج بھی (جمعرات) اڈیالہ جیل راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے ذاتی تعلق اور ماضی میں براہ راست ٹیلیفونک رابطوں کے سلسلے کو دہرایا ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان جب امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے تھے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات اور ان کی پذیرائی کی تھی پھر دونوں شخصیات میں مزاج، نفسیات، افتاد طبع اور اقدامات پر عمل کرانے کے جارحانہ انداز اور طریقہ کار میں مماثلت میں بھی ان کو ذہنی طور پر قریب کیا اور اس طرح ’’من تورا حاجی بگوئیم، تو میرا ملا بگو (میں تجھے حاجی کہوں تو مجھے ملا کہے)‘‘ کے مصداق دونوں کی خوب جمی اور ایک دوسرے کی خوب تعریفیں بھی ہوئیں۔ لیکن آج صورتحال متضاد ہے ڈونلڈ ٹرمپ سپر پاور کے دوبارہ صدر بن چکے ہیں اور دنیا بھر کی نظریں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور دوسرا جیل کی کوٹھڑی میں کسی دنیاوی معجزے کا منتظر۔ دوستی کے دعویدار کو یاد رکھنا چاہئے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے امریکی احکامات کی تعمیل اور ان کے مفادات کا روایتی وفاداروں کی طرح تحفظ کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ 2003 میں اس وقت کے امریکی صدر کی خصوصی دعوت پر امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے تھے تو اس وقت ان کے امریکی ہم منصب جارج بش نے انہیں صدارتی رہائش گاہ کیمپ ڈیوڈ میں ٹھہرایا تھا اور یہ اعزاز امریکہ میں کم ہی غیر ملکی شخصیات کو حاصل ہوتا ہے۔