کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے کہا ہےکہ جو چیز ان کی انتخابی مہم میں ترجیح نہیں رہی وہ کیسے صدر بننے کے بعد ترجیح ہوجائے گی،ٹرمپ ہر کام میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں یا صدر بننے کے بعد وہ امریکہ کا فائدہ بھی دیکھیں گے تحریک انصاف کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ ٹرمپ کو یا امریکہ کو کیا فائدہ ہوگا کہ وہ عمران خان کی رہائی میں دلچسپی لے،ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد تین ملکوں کے سربراہوں سے بات کی ہے ایک مودی، دوسرا سعودی ولی عہد اور تیسرے اسرائیل کے وزیراعظم ان میں سے کسی نے عمران خان نے سفارش نہیں کی ہوگی۔سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے کہا کہ 2017 میں خواجہ آصف جو وزیر دفاع تھے انہوں نے الزام لگایا تھا کہ صدر ٹرمپ کی جو پالیسی جنوبی ایشیا کے بارے میں آئی تھی وہ میں نے لکھی اس پر بھی میں نے کہا تھا کہ امریکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں عمران خان کو بھی یہی سمجھانا چاہتا ہوں کہ ان کے کان کچے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر بائیڈن جیسا سیاسی طور پر تجربہ کار آدمی کسی کے کان بھرنے سے پالیسی بنائے گا۔ممکن ہے میری تحریروں سے کسی نے رائے بنائی ہو لیکن میں نہ کبھی لابسٹ تھا نہ ہوں اگر لابسٹ ہوتا تو تحریک انصاف سے بہت سے پیسے لے کر اُن کو یہ امید دلاتا کہ تمہارا کام ہوجائے گا اتنے پیسے مجھے دے دو جیسے کئی لوگ کر رہے ہیں۔ٹرمپ جب صدر تھے تو کیا انہوں نے کسی بھی ملک میں کسی معروف شخصیت کو قید سے چھڑانے کی کوشش کی ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہوسکتا ہے وہ کسی کو ایک عاد کال کر دیں یا ٹوئٹ کردیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اس وقت امریکہ کے پاس پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا کون سا ذریعہ موجود ہے۔