• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین ! 26ویں ترمیم کے بعد حکومت نے ایک مرتبہ پھر حزب اختلاف کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران قومی اسمبلی سے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت3 سال سے بڑھا کر5سال، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد9 سے بڑھا کر 12 کرنے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی قانون 2024 ء کے بل کثرت رائے سے منظور کرا لئے۔ مذکورہ بل سینٹ سے بھی منظور کرا لئے گئے۔ ان بلوں پر قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی نے دستخط کر دیئے ہیں ۔جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ججز کی تعداد بڑھانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجرترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیے جبکہ مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت5 سال کرنے کے ترمیمی بلز وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کئے۔اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 کی جا رہی ہے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ضرورت کے مطابق ججز کی تعداد میں اضافہ یا کمی کر سکے گا۔ ہوسکتا ہے پہلے مرحلے میں ہمیں 6 یا 8 ججز کی ضرورت پڑے، وقت کے ساتھ یہ نمبر بڑھتا گھٹتا رہے گا، ہم نے اس فیصلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان پر چھوڑ دیا ہے۔۔بالآخر ترامیم کے بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے اور صدر پاکستان کے دستخط ہونے کے بعد فوری طور پر نافذ العمل ہوچکے ہیں ۔حکومت کو ان ترامیم کی خاطر کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے اور اب بھی اگر یہ کہا جائے کہ اپوزیشن جماعتیںاس پر شور و غوغا برپا کئے ہوئے ہیں اور ان ترامیم کی کڑی مخالفت کی جا رہی ہے تو یہ بات غلط نہیں ہوگی۔یادرہے کہ 20اکتوبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کی منظوری دی گئی تھی۔یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ترمیمی بلز کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان نہ صرف ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے بلکہ دونوں جانب سے ارکان نے گریبان پکڑے،اپوزیشن اراکین نے ترمیمی بلز کی کاپیاں پھاڑ دیں،اسپیکر کے ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا گیا تاہم اس تمام تر شورشرابے کے باوجود اکثریت رائے سے بل پاس کر لئے گئے ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان ترامیم کے خلاف جماعت اسلامی عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کر رہی ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف سمیت مولانا فضل الرحمن اس درجہ سرعت کے ساتھ آئین میں کی جانے والی ترامیم کی وجہ سے حکومت سے نالاں ہیں ۔ حکومت اگرچہ اس ضمن میں بار ہا وضاحتیں پیش کر چکی ہے اور اب بھی وزیر قانون کا یہی کہنا ہے کہ آئینی عدالت کیلئے ججز چاہیے تھے اور ججزکی تعداد بڑھانے کا مقصدزیر التوا مقدمات کی تعداد کم کرنا ہے اور یہ بات درست بھی ہے کیونکہ اس وقت 65000مقدمات التواکا شکار ہیں جن کی سماعت نہیں ہورہی ہے ۔نئے قانون کے مطابق سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17سے بڑھا کر 34 کی گئی ہے۔اسلام آباد کے جج نو ہیں اس قانون کے تحت ان کی تعداد 12ہو جائے گی۔جب کہ دیگر ہائی کورٹس میں کئی اسامیاں خالی ہیں۔ وہ اسامیاں بھی پر ہو جاتی ہیں تو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں 60 کا اضافہ ہو جائے گا۔سپریم کورٹ میں 60 ہزار کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ لوئر کورٹس اور ہائی کورٹس میں یہ تعداد لاکھوں تک ہے۔ہر نئے آنے والے چیف جسٹس کی طرف سے بیک لاگ کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہی رہے ہیں۔اب کے ججوں کی تعداد اتنی ہونے کے بعد عدلیہ کے پاس ججوں کے بیک لاگ کے برقرار رہنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔کراچی لاہور اور کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹریاں موجود ہیں مگر وہ ججوں کی کمی کے باعث عموماً خالی رہتی ہیں۔اب جب کہ ججوں کی تعداد 17 سے 34 ہو جائے گی تو ان رجسٹریوں میں مستقل بنیادوں پر ججز حضرات موجود ہوا کریں گے۔جس سے علاقے کے سائلین کو بروقت اور سستاانصاف بھی مل سکے گا۔

دوسری جانب ترکی نے دنیا کے 52ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی پر فوری پابندی عائد کرے۔ان ممالک میں سعودی عرب ،برازیل ،الجزائر،چین ، ایران اور روس سرفہرست شامل ہیں۔ترکیہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے اقوام متحدہ کو ایک خط پیش کیا ہے جس پر 52ممالک اور 2تنظیموں کے دستخط ہیں ،جس میں اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔یہ خط یکم نومبر کو اقوام متحدہ تک پہنچایا گیاہے ۔ ۔دستخط کرنے والوں میں 2عالمی تنظیمیں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم بھی شامل ہیں ۔اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دھرتی کا ناسور ہے اور اس کے مقابلے میں عالم اسلام خصوصاََ اوآئی سی نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کا ہونا یا نہ ہونابرابر ہے۔کس قدر شرم کی بات ہے کہ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کے دوسرے حامی کھلے عام اسلحہ اور افواج اسرائیل کو فراہم کررہے ہیں ،لیکن عالم اسلام مطالبات کرنے اور خطوط لکھنے سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے ۔گزشتہ ایک برس میں او آئی سی کے 3اجلاسوں میں پاکستان کی یہ تجویز مسترد کی جاچکی ہے کہ اسرائیل کے ارد گرد مسلم ممالک اسرائیل کارگو کیلئے اپنی سرحد یں بند کردیں ۔اگر مسلم ممالک یہ کر گزریں تو زمینی راستے سے ایک بوند تک پانی اور ایک بلٹ بھی اسرائیل کو نہیں مل سکے۔عالم اسلام ،خصوصاََ عرب لیگ اور او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیلی کارگو پر پابندی لگائیں اور جو ملک اسے تسلیم نہیں کرتا اسے او آئی سی سے نکال باہر کریں۔

تازہ ترین