• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیعِ مرابحہ میں دھوکا دہی کا پتا چلنے کی صورت مُشتری کو کیا کرنا چاہیے؟

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میرے ایک ساتھی نے مجھے ایک کتاب فروخت کی جو اس نے تقریباً 400 یا500 میں خریدی تھی، اور مجھے کہا کہ میں نے 600 میں خریدی ہے، اور پھر کہا کہ 100 روپے نفع کے ساتھ آپ کو 700 میں فروخت کروں گا، تو میں نے اس سے کتاب لے لی، بعد میں مجھے پتا چلا کہ اس نے مجھے دھوکا دیا ہے اور جھوٹ بولا ہے، 100 روپے زیادہ لیے ہیں، تو میں نے پھر اس سے کہا کہ میرے نمبر پر 100 روپے کا لوڈ کردو، پھر میں بعد میں 100 روپے واپس دے دوں گا، اس نے لوڈ کردیا، اس طرح وہ 100 روپے میں نے لے لیے، اب میں اس کو نہیں دینا چاہتا، اور وہ کہہ رہا ہے کہ تم نے کہا تھا واپس دوں گا ،اس لئے واپس دو، میں نے کہا کہ تو نے دھوکے میں 100روپے لیے تھے تو میں نے بھی لے لیے، اب میرا سوال یہ ہے کہ یہ پیسے میرے لیے اس طرح سے لینا اور استعمال کرنا جائز ہے ؟ یا مجھے واپس دینے ہوں گے اس ساتھی کو؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں جب سائل کو اس کے دوست نے دھوکا دے کر سستی کتاب مہنگی قیمت پربیچی، اور بعد میں سائل کو اس کی دھوکا دہی کا پتا چلا، اور وہی رقم سائل نے دوبارہ دھوکے سے وصول کی ہے، تو یہ رقم سائل کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ سائل پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ رقم اپنے ساتھی کو دوبارہ وعدے کے مطابق واپس کر دے، البتہ سائل کو یہ اختیار ہوگا کہ اگر اس نے کتاب میں کوئی خرابی وغیر ہ نہیں کی ہے اور کتاب سالم ہے تو وہ کتاب واپس اپنے ساتھی کو دے دے اور اپنے پورے پیسے اس سے لے لے، یا مذکورہ کتاب اسی قیمت میں قبول کرے یعنی صرف دھوکا دہی والی رقم (100 روپے) اسے لینے کا اختیار نہیں ہے، اگر سائل نے کتاب میں کوئی خرابی وغیرہ کی ہے تو پھر سائل کے لیے نہ پیسے لینے کا اختیار ہوگا اور نہ ہی کتاب واپس کرنے کا، بلکہ اس کو اسی رقم میں قبول کرنا ہوگا۔ 

(ردّ المحتار علیٰ الدر المختار، کتاب البيوع، باب المرابحۃ والتوليۃ، (5/ 137)، ط: سعيد - درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام، کتاب البيوع، المبحث السّادس فی بيان خيار الخيانۃ، (1/ 378)، ط: دار الجيل - الفتاویٰ العالمکيريۃ، کتاب البيوع، الباب الرابع عشر فی المرابحۃ والتوليۃ والوضيعۃ، (3/ 163)، ط: دار الفکر)