ایران پر اسرائیل نے حملہ کیا تو ایرانیوں کے جذبات میں تلاطم آ گیا۔ ہر جانب ردِعمل کی تمنا لہراتی دکھائی دینے لگی۔ تہران یونیورسٹی میں اس حملے کے بعد آئے دن نئے نئے پوسٹر اور شہدا کی تصاویر دکھائی دینے لگیں۔ دانش کدئہ ادبیات و علوم انسانی کے کو ریڈور میں ایک بینر پر یہ لکھا گیا ’’دانشجو باید احساس سیاسی، درک سیاسی و تحلیل سیاسی داشتہ باشید‘‘ طالب علموں میں سیاست کا احساس و ادراک اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ایک اور بینر پر لکھا گیا ہے: ’’خدا لعنت کندآن دست ہای را کہ تلاش می کنند قشرجوان مارا غیر سیاسی کنند‘‘ خدا ان ہاتھوں پر لعنت کرے جو ہمارے نوجوانوں کو غیر سیاسی بنانا چاہتے ہیں۔ ایک بینر کی عبارت ایسی تھی جس نے ہماری عنان خیال کو فکر اقبال کی جانب موڑ دیا اس پر لکھا تھا ’’خبردار:ایران عاشقوں کا ملک ہے عاقلوں کا نہیں‘‘۔اقبال کے کلام میں عقل اور عشق کی آویزش پر بہت زور دیا گیا ہے، اور اقبال کے ہاں اس معرکے میں عقل پر عشق ہی غالب نظر آتاہے۔ انھوں نے عقل ِمحض کے نتیجے میں پیدا ہونے والے علم کو بے روح قرار دیا ہے اور عقل ِمحض کی بنیاد پر لکھے جانے والے تمام فلسفے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا فلسفہ یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار ہے۔ صرف وہی علوم زندہ کہلا سکتے ہیں جو خون ِجگر سے لکھے جاتے ہیں، انھی علوم میں حضوری کی کیفیت ہوتی ہے اور یہ کیفیت عشق کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ جدید علوم کی عقلی بنیاد کو ناپسند کر نے کے باعث وہ جدید علوم کی حیثیت پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ دانش حاضر یعنی اس دور کے علوم نے انسانوں اور حقائق ِحیات کے درمیان ایک بہت بڑا حجاب قائم کر دیا ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر تہران کی سڑکوں پر اقبال کی یادمیں بڑے بڑے بل بورڈ لگائے گئے۔ ان بورڈوں پر اقبال کی خلاقانہ تصاویر کے ساتھ اشعار اقبال درج کیے گئے، جن اشعار کا انتخاب کیا گیا وہ حب وطن اور مقاومت و مزاحمت ہی سے تعلق رکھتے ہیں، مثلاً ایک شعر میں خطہ مشرق کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دین اور فن مشرق ہی کی میراث ہے اس لیے اس پر آسمان بھی رشک کرتا ہے۔ ایک بورڈ پر اقبال کی مشہور نظم ’’از خواب گران خیز‘‘ کا وہ شعر تھا جس میں ہند، سمرقند، عراق اور ہمدان کی حد بندیوں سے بلند ہونے اور خوابِ گراں سے بیدار ہو جانے کا پیغام ہے۔ ایک بل بورڈ پر زبور عجم کی اس والہانہ غزل کا شعردرج ہے جس میں بڑی کیفیت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ’اس باغ کے پھول سرخ رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں اس لیے ہاتھوں سے ہتھیار نہ رکھو کہ ابھی جنگ جاری ہے‘۔ ایک شعر کا پیغام یہ ہے کہ ’جس کی روح کے باطن میں سچائی ہوتی ہے وہ کبھی باطل کے سامنے گردن نہیں جھکاتا‘۔ ایک اور بورڈ پر درج شعرمیں تمام بل بورڈوں کا مضمون اور خود پیام اقبال کاخلاصہ سمٹ آیا ہے۔
اقبال 1928ء میں جب اپنے خطبات کے سلسلے میں مدراس گئے تھے تو وہاں سے بہ طور خاص سلطان ٹیپو کے مرقد پر حاضری دینے کے لیے سرنگا پٹم بھی گئے تھے۔ روضہء سلطانی میں نہایت ادب سے داخل ہوئے، تخلیہ میں مراقبہ کیا، ڈیڑھ گھنٹے بعد دروازہ کھول کر باہر نکلے تو شدت گریہ سے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ کسی نے پوچھا اندر سے کیا پیغام لائے تو اقبا ل نے کہا ؎
درجہان نتوان اگر مردانہ زیست
ہمچو مردان جان سپردن زندگیست
اگر دنیا میں بہادروں کی طرح جینا ممکن نہ رہے تو بہادروں کی طرح جان دے دینا ہی زندگی ہے۔ اس پس منظر میں اس سال تہران میں اقبال کے یوم ولادت کی معنویت بہت بڑھ گئی تھی۔ راقم الحروف نے تہران یونیورسٹی میں کرسی اردو و مطالعہ پاکستان کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اس لیے اس کی خواہش تھی کہ اس بار تہران یونیورسٹی میں یوم اقبال منایا جائے۔ خوبیِ قسمت سے سفیر پاکستان جناب محمد مدثر ٹیپو بھی اس کے ہم نوان کلے۔ چنانچہ سولہ برس کے بعد سفارت خانہ پاکستان کے تعاون سے دانش گاہ تہران میں یوم اقبال کی تقریب منعقد ہوئی۔ دانش کدہ ادبیات کا تالار فردوسی بہت بڑا ہال ہے جس میں ہزار سے زیادہ افراد کی سمائی ہے۔ ایران اور پاکستان کے قومی ترانوں نے آغاز تقریب ہی میں ایک خاص کیفیت پیدا کر دی۔ ڈین آف فیکلٹی ڈاکٹر عبدالرضا سیف نے تقریب کی صدارت کی۔ صدر شعبہ فرہنگ و زبان ہائے باستان ڈاکٹر علی شہیدی، ڈاکٹر قاسم صافی، ڈاکٹر خانم نہاوندی، ایکو ثقافتی کے صدر ڈاکٹر سعد خان اور راقم الحروف نے تقریب سے خطاب کیا۔ ایران میں اردو کے جگمگاتے ستاروں ڈاکٹر علی بیات اور ڈاکٹر وفا یزدان منش نے بڑے سلیقے سے تقریب کی نظامت کی اور اردو خطبات کا فارسی اور فارسی خطبات کا رواں اردو ترجمہ پیش کیا۔ سفیر پاکستان محمد مدثر ٹیپو تقریب کے مہان خصوصی تھے۔ اس بات کو بہت سراہا گیا کہ مدثر ٹیپو صاحب نے برجستہ اردو میں خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں یہ بتا کرحیران کر دیا کہ رہبر انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای کو اقبال کے دو ہزار اشعار زبانی یاد ہیں۔ انھوں نے تہران یونیورسٹی کو سفارت خانہ پاکستان کی جانب سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ سفیر پاکستان کے خطاب کے بعد یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ ایک مدت سے ایرانی طلبا کے پاکستان جا کر تعلیم حاصل کرنے کا جو سلسلہ موقوف چلا آ رہا ہے وہ بحال ہو سکے گا اور خاص طور سے شعبہ اردو کے طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان جا سکیں گے۔
تقریب میں ایران اور پاکستان کی متعدد شخصیات نے شرکت کی۔ تہران یونیورسٹی کے معاون آموزشی ڈاکٹر محمود فضیلت، شعبہ عربی کے استاد ڈاکٹر فراتی، اساتذئہ اردو ڈاکٹر محمد کیومرثی، ڈاکٹر علی کائوسی نژازد اور ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی، سفارت خانہ پاکستان سے جناب فرحان علی، جناب احمد شامی، محترمہ فرحت جبیں۔ جناب ساجد بلال اور سفارتی عملے کے دیگر ارکان نیز ڈاکٹر راشد نقوی اور حسن رضا نقوی بہت دلچسپی کے ساتھ اول تا آخر موجود رہے۔ محترمہ فرحت جبیں اور ان کے عملے نے اس تقریب کے انعقاد میں خصوصی دلچسپی لی۔ پاکستان انٹرنیشنل اسکول تہران کے طلبا و طالبات بھی جوش و خروش کے ساتھ تقریب میں شریک ہوئے۔ تواضع کا اہتمام تالاردکتر شہیدی میں کیا گیا تھا۔ تقریب کے انعقاد کو ایران اور پاکستان کے علمی اور سفارتی حلقوں میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ ڈاکٹر سیف نے کہا کہ راقم کی فارسی تقریر کو تہران یونیورسٹی کے ریسرچ جرنل میں شائع کیا جائے گا۔ سابق سیکریٹری خارجہ جناب شمشاد احمد، فارن سروسز اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایمبسڈر خالد عثمان قیصر، ممتاز دانشور ڈاکٹر خورشید رضوی اور متعدد ایرانی و پاکستانی دانش وروں نے راقم کو بہ طور خاص مبارک دی۔ بلاشبہ تہران کے علمی حلقوں میں اس تقریب کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔