نیویارک(تجزیہ: عظیم ایم میاں) امریکی منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی واضح اور مکملُ جیت کے اثر میں آکر جس انداز میں اپنے ذاتی وفاداروں کو اہم عہدوں پر نامزد کر رہے ہیں اس کے باعث نہ صرف انکی اپنی ریپبلکن پارٹی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے بلکہ شکست خوردہ سیاسی حریف ڈیمو کریٹ پارٹی صدارت کے ساتھ ساتھ سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں اکثریت کھونے کے باوجود ٹرمپ کی ان نامزدگیوں کی سخت مخالفت اور مزاحمت کی مضبوط حکمت عملی اختیار کرنے میں ابھی سے آسانی محسوس کر رہی ہے۔گوکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی کی روا یتی کنزرویٹو قیادت کا صفایا یا پھر خاموش کرکے اپنی گرفت مضبوط کرکے ٹرمپ سوچ کو ریپبلکن سوچ کا نام دیدیا ہے تاہم انکی ان متنازعہ نامزدگیوں پر بعض ریپبلکن حلقے بھی مخالفت اور تنقید کر رہے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے بعض رہنما ، تجربہ اور توازن کو نظر انداز کرکے اپنی ذاتی پسند اور شخصی فیصلوں کو مسلط کرنے کی ٹرمپ حکمت عملی پر بعض ری پبلکن حلقے معترض اور مضطرب ہیں جن میں ریاست لوزیانا کے ریپبلکن سینیٹر بل کیسیڈی،ریاست مین سے ریپبلکن خاتون سینیٹر سوزن کولنز،الاسکا سے ریپبلکن خاتون سینیٹر لیزا مرکاوسکی کھل کر اورحکمراں پارٹی کے بعض دیگر حلقے حیرانی اور خاموشی سے اس صورتحال کی سمت اور اثرات بارے متفکر نظر آتے ہیں جبکہ انتخابات میں شکست خوردہ سیاسی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی اپنے ڈیپریشن اور احساس شکست سے نکلنے کےلیے ان نامزدگیوں کی بھر پور مزاحمت کی تیاری کر رہی ہے۔ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں صرف 4 نشستوں کی اکثریت حاصل ہے جبکہ ایوان نمائندگان میں بھی معمولی برتری حاصل ہے۔ ڈیموکریسی اور لبرلزم کا حامی اور ڈیموکریٹک رحجانات کا حامی موثر امریکی میڈیا بھی ابھی سے ٹرمپ کی نامزدگیوں سے لیکر مختلف موضوعات بارے تنقیدی خیالات اور ٹرمپ ایجنڈا بارے شبہات کا اظہار کررہا ہے۔اپنے پہلے دور صدارت میں ٹرمپ سی این این،نیویارک ٹائمز اور دیگر معتبر امریکی میڈیا کے ساتھ جو سلوک کر چکے ہیں وہ ریکارڈ پر ہے- اٹارنی جنرل اور محکمہ انصاف کیُ سربراہی کیلئے ایک ایسے ریپبلکن کانگریس مین میٹ گیٹز کو نامزد کیا ہے جو بعض جنسی الزامات سمیت قانون اور اخلاقیات شکنی کے الزامات کے حوالے سے ایوان کی کمیٹی کے زیر تحقیق رہا ہے اور ٹرمپ کی نامزدگی کا اعلان ہوتے ہی سینیٹ سے اپنی منظوری سے قبل ہی اپنی نشست سے مستعفی ہو گیا تاکہ اس کے بارے تحقیقاتی رپورٹ ریلیز نہ کی جاسکے۔