مولانا مفتی احمد الرحمٰن
ان ضروری امور کی وضاحت کے بعد اب ’’برکاتِ سنت‘‘ کو بیان کرتا ہوں، لیکن یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ’’برکاتِ سنت‘‘ بے شمار ہیں، ان کا احاطہ ممکن نہیں، یہاں بطور نمونہ چند امور کو بیان کر سکوں گا:
محبوبیتِ خداوندی:۔ اتباعِ سنت کی سب سے اہم برکت یہ ہے کہ اس کی بدولت آدمی اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہوجاتا ہے، قرآن کریم میں ہے: ترجمہ: ’’آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگےگااور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑا عنایت فرمانے والا ہے۔‘‘(سورۂ آلِ عمران:۳۱)
شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو تو لازم ہے کہ اس کو اتباعِ محمدی ( ﷺ ) کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہو جائے گا۔
جو شخص جس قدر حبیبِ خدا محمد رسول اللہ ﷺ کی راہ پر چلتا، آپ ﷺ کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بناتا ہے، اسی قدر سمجھنا چاہیے کہ اللہ کی محبت کے دعوے میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعوے میں سچا ہوگا، اتنا ہی حضور ﷺ کی پیروی میں مضبوط ومستعد پایا جائے گا، جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور حضور ﷺ کی اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری وباطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی۔‘‘
اتباعِ نبوی ( ﷺ ) کی برکت سے حق تعالیٰ شانہ کی محبت ومحبوبیت حاصل ہونے کا راز یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ محبوب رب العالمین ہیں، جو شخص بھی آنحضرت ﷺ کی شکل وشباہت، آپ ﷺ کے اخلاق و اعمال اور آپ ﷺ کی سیرت وکردار کو اپنائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہو جائے گا، کیونکہ محبوب کی ادائیں بھی محبوب ہوتی ہیں۔
دوسرے: یہ کہ آپ ﷺ کی ہرہر ادا اور آپ ﷺ کا ہر قول وعمل منشائے الٰہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، گویا اگر کوئی شخص رضائے الٰہی کو مجسم شکل میں دیکھنا چاہتا ہو، وہ آنحضرت ﷺ کو دیکھ لے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت کو عین اطاعتِ خداوندی قرار دیا گیا، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ترجمہ: ’’جس نے حکم مانا رسول کا، اس نے حکم مانا اللہ کا، اور جو اُلٹا پھرا تو ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا ان پر نگہبان۔‘‘ (سورۃالنساء:۸۰)
ؒپس جب آپ ﷺ کی سنت، رضائے الٰہی کا معیار ہوئی اور آپ ﷺ کی اطاعت عین اطاعتِ خداوندی قرار پائی تو جو شخص بھی آپ ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے مبارک طریقوں کو اپنائے گا اور جو شخص بھی آپ ﷺ کی معین کردہ شاہراہِ عمل پر گامزن ہوگا، وہ رضائے الٰہی کا مورد ہوگا اور ’’رضي اﷲ عنہم ورضوا عنہ‘‘ کی بشارت سے سرفراز ہوگا۔ یہ اُمتِ محمدیہ کی انتہائی سعادت وخوش بختی ہے کہ انہیں آنحضرت ﷺ کی پیروی سے محبوبیت ورضائے الٰہی کا مقام میسر آسکتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ محبت دو طرفہ چیز ہے، پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوگا وہ محب بھی ہوگا، جیساکہ ارشاد ہوا ہے:’’یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ‘‘ یعنی ’’اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘
گویا محبوب رب العالمین ﷺ کی سنت کو اختیار کرنے والے کو دو انعام عطا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ: اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ: اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’محبِ صادق‘‘ ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے۔
معیّتِ نبوی ﷺ:۔ اتباعِ سنت کی ایک برکت یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت ﷺ کی معیت نصیب ہوگی، آنحضرت ﷺ نے اپنے خادمِ خاص حضرت انسؓ سے فرمایا تھا: ’’اے بیٹا! اگر تو اس پر قادر ہو کہ ایسی حالت میں صبح وشام کرو کہ تیرے دل میں کسی کی جانب سے میل نہ ہو تو ضرور ایسا کر، پھر فرمایا: اے بیٹا! اور یہ میری سنت میں سے ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۳۰)اس حدیث پاک میں سنت نبوی ﷺ کو محبوب ومرغوب رکھنے والے کے لیے متعدد انعامات کی بشارت ہے۔
ایک: یہ کہ ایسے شخص کا نام آنحضرت ﷺ کے عشاق ومحبین میں لکھا جائے گا، گویا ’’عشقِ رسول‘‘ کا معیار ہی ’’سنتِ نبوی ﷺ ‘‘ سے محبت ہے، جو شخص جس قدر متبعِ سنت ہوگا، اسی قدر عشقِ رسالت میں اس کا مقام بلند ہوگا اور جو شخص جس قدر سنتِ نبوی کی پیروی سے محروم ہوگا، اسی قدر ’’عشقِ نبوی‘‘ سے بے نصیب ہوگا۔
دوسرے: یہ کہ اتباعِ سنت پر صادق مصدوق ﷺ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ ایسا وعدہ ہے جس میں تخلُّف کا کوئی امکان نہیں، پس عشق ومحبت کے ساتھ سنتِ نبوی کی پیروی جنت کا ٹکٹ ہے۔
تیسرا انعام: جو تمام انعامات سے مزید تر ہے، یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت ﷺ کی رفاقت ومعیّت نصیب ہوگی اور یہ مضمون قرآن کریم میں بھی منصوص ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’اور جو کوئی حکم مانے اللہ کا اور اس کے رسول ﷺ کا، سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا کہ وہ نبی ، صدیق ، شہید اور نیک بخت ہیں اور اچھی ہے ان کی رفاقت۔
یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔‘‘ (سورۃالنساء: ۶۸، ۶۹)اس نعمتِ کبریٰ اور دولتِ عظمیٰ سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوسکتی ہے کہ کسی خوش بخت کو سرورِ کونین ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام ، صدیقینؓ، شہداءؒ اور صالحینؒ کی صحبت ورفاقت میسر آجائے۔
سو شہید کا مرتبہ:۔ شہید فی سبیل اللہ کا مقام کتنا بلند ہے؟ اور اسے کس قدر انعامات سے نوازا جاتا ہے؟ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ ( ﷺ ) میں اس کی تفصیل موجود ہے، لیکن ’’سنتِ نبوی ﷺ ‘‘ پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرنے والے کو سو شہید کا مرتبہ عطا کیا جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے: ترجمہ: ’’جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا میری اُمت کے بگاڑ کے وقت اس کے لیے سو شہید کا اجر ہے۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۳۰)یہ حدیث متعدد فوائد پر مشتمل ہے:
ایک: یہ کہ اس میں اُمت کے عمومی بگاڑ کی پیش گوئی فرمائی گئی ہے۔ ’’عمومی بگاڑ‘‘ کا لفظ میں نے اس لیے کہا کہ لاکھ دو لاکھ آدمیوں کی جماعت میں اگر سو پچاس آدمی بگڑے ہوئے ہوں تو اس بگاڑ کو پوری جماعت کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔
یہاں آنحضرت ﷺ نے ’’فسادِ امت‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس میں ا س طرف اشارہ ہے کہ امت کی اکثریت میں فساد آئے گا، کہیں عقائد کا بگاڑ ہوگا، کہیں اعمال کا، کہیں اخلاق کا، کہیں معاملات اور معاشرت کا بگاڑ ہوگا، آج امت کے مجموعی حالات پر نظر ڈالی جائے تو ’’فساد أمتی‘‘ کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔
دوم: یہ کہ امت کا یہ بگاڑ ترکِ سنت کی وجہ سے ہوگا، یعنی امت، آنحضرت ﷺ والے اعمال اور اخلاق وآداب کو چھوڑ کر گمراہ قوموں کے نقشِ قدم پر چل پڑے گی اور یہی چیز اس کے عالمگیر فساد کا سبب بن جائے گی۔یہ امت غیر قوموں کی تقلید کے لیے وجود میں نہیں لائی گئی، بلکہ اقوامِ عالم کی امامت وقیادت کا تاج اس کے سر پر رکھا گیا تھا، اور وہ امامت وقیادت کے منصب پر اسی وقت تک فائز رہے گی، جب تک وہ خود اپنے نبی رحمت ﷺ کی مقتدی ہو، آپ ﷺ کے نقشِ قدم کی پابند ہو اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی امانت کی نگہبان وپاسبان ہو، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: ترجمہ: ’’تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران:۱۱۰)
افسوس ہے کہ قرآن کریم نے ’’خیرِ امت‘‘ کے جو اوصاف وخصوصیات اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائے ہیں، اپنے نبی رحمت ﷺ کی سنت وطریقے کو چھوڑنے کی وجہ سے امت ان خصوصیات سے ہاتھ دھو بیٹھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقوامِ عالم کی قیادت کے بجائے ان کی دریوزہ گر ہو کر رہ گئی۔ آج اس کی گراوٹ وپستی کا یہ عالم ہے کہ وہ مادیات ہی میں دوسری قوموں سے بھیک نہیں مانگ رہی، بلکہ آئین وقانون، تمدن وشہریت اور اخلاق ومعاشرت کے آداب بھی باہر سے در آمد کررہی ہے۔
سوم: یہ کہ امت کے عمومی فساد اور بگاڑ کی فضا میں بھی ہر امتی کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ وہ سنتِ نبوی ﷺ سے تمسک کرے اور اس کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے، ایسے پُر از فساد ماحول میں بھی کسی شخص کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ’’اجی کیا کریں؟ پورا معاشرہ ہی بگڑا ہوا ہے، ایسے ماحول میں ’’سنتِ نبوی ﷺ ‘‘ پر عمل کیسے کریں؟‘‘ نہیں، بلکہ چار سُو ہزار فتنہ وفساد ہو، معاشرہ اور ماحول کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اتباعِ سنت کی پابندی بہرحال لازم ہے، یہ کبھی ساقط نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اُمت کے عمومی بگاڑ اور فساد کے زمانے میں بھی’’سنت‘‘ کو مضبوطی، عزم اور حوصلہ کے ساتھ تھامنے کا حکم فرمایا ہے۔
چہارم: یہ کہ جو شخص ایسے فساد آمیز ماحول میں بھی ’’سنتِ نبوی‘‘کو سینے سے لگائے رکھے، اسے بشارت دی گئی ہے کہ یہ قیامت کے روز سو شہیدوں کا اجر ومرتبہ پائے گا، کیونکہ شہید تو ایک مرتبہ اپنی جانِ عزیز کا نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کرکے سرخرو ہوجاتا ہے اور یہ شخص کار زارِ زندگی میں جہادِ مسلسل کررہا ہے، اس پر ہرطرف سے طعنوں کی بارش ہو رہی ہے، کوئی ’’دقیانوسی‘‘ کہہ رہا ہے، کوئی کٹھ ملاّ کا خطاب دے رہا ہے، کوئی ’’رجعت پسند‘‘ کی پھبتی اُڑا رہاہے۔
غرض اس مجاہد کو ہزار طعنے برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، جن سے اس کے قلب وجگر چھلنی ہیں، لیکن اس نے بھی ’’محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کا عہد باندھ رکھا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس عہد کو نبھارہا ہے، اس لیے کوئی شک نہیں کہ اس کا کارنامہ سو مجاہدوں کے برابر شمار کیے جانے کے لائق ہے۔