• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علم حاصل کرو چاہے چین کیوں نہ جانا پڑے

عمار احمد

چین جغرافیائی لحاظ سے چوتھا ، معیشت کے لحاظ سے دوسرا اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تعلیمی اداروں کی تعداد کے اعتبار سے چین اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چین نے اعلی معیاری تعلیم کےلئے بیرونی دنیا کے طلبا و طالبات کےلئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں اور چینی یونیورسٹیاں حقیقی طور پر دیگر ممالک سے آ کر پڑھنے والوں میں کافی مقبول ہورہی ہیں۔

چین کی ترقی کو بنیاد فراہم کرنیوالی اہم بات اس کا نظام تعلیم ہے۔ جس میں بدلتے رجحانات اور جدیدت کے پیش نظر تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔چین کے تعلیمی نظام کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں سب کچھ چینی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ انگریزی زبان البتہ اب پرائمریا سکول سے ہی پڑھائی جاتی ہے تا ہم یہ صرف بطور مضمون پڑھائی جاتی ہے۔

چین کے تعلیمی اداروں میں مختلف ڈگری پروگرامز ہورہے ہیں جیسے بیچلر، ماسٹر اور میڈیکل۔ غیر ملکی طلباء کا چین میں اعلی تعلیم کے تمام اداروں میں داخلہ لینے پر خیر مقدم کیا جاتا ہے، جن میں زیادہ میڈیکل کے طالبعلم جبکہ دوسرے نمبر پر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہیں۔

چین میں تعلیم سمیت زندگی کا ہر شعبہ زبردست ترقی کررہا ہے،چناں چہ اب یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی (Ranking) میں چینی یونیورسٹیاں تیزی سے اوپر بڑھ رہی ہیں۔

پاکستان اور چین کے تعلقات کے چرچے تو مسلسل سننے کو ملتے ہیں اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون میں نمایاں بہتری بھی آئی ہے لیکن حالیہ برسوں میں تعلیم کی غرض سے چین جانے والے پاکستانی طلبہ کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی طالبِ علم چین کی مختلف یونیورسٹیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میڈیکل سائنسز اور میڈیا اسٹڈیز سمیت کئی دیگر شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی تھا جب ایک ٹرینڈتھا کہ طلبا یورپ یا امریکا میں پڑھنے جانا چاہتےتھے چین کاتو کوئی سوچتا ہی نہیں تھا کہ پتہ نہیں یہاں کس طرح کی تعلیم ہے معیاری ہے بھی یا نہیں ؟ ہمارے ہاں اکثر طالب علم اب بھی یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ایک تو وہاں داخلہ مشکل سے ملتا ہے اور دوسرا وہ اسکالرشپس بہت کم دیتے ہیں جس کی وجہ سے طلبا کو خود سے اچھا خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔

چینی یونیورسٹیز نے اسکالر شپ دینے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔اپنا معیار بہتر بنانے پر بہت توجہ دی ہے۔ کسی ملک کی تعلیم کا معیار مختلف پیمانوں سے جانچا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں ایک بہت اہم پیمانہ بین الاقوامی سطح پر اس ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی رینکنگ ہے۔ 

ایک لمبے عرصے تک اس لسٹ میں امریکہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک کی اجارہ داری تھی ۔ لیکن پچھلی دہائی سے چینی یونیورسٹیوں نے اپنا معیار بہت بہتر بنایا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی ساکھ بہت بہتر ہوئی ہے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست دیکھیں تو پہلی 100 یونیورسٹیوں میں کئی نام چینی یونیورسٹیوں کے ہیں۔ چینی یونیورسٹیاں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔یونیورسٹی کیمپس میں تدریسی اور رہائشی عمارتوں کے علاوہ کھیلنے کا میدان، جم اور سوئمنگ پول کی سہولتیں بھی موجود ہیں۔ 

یہاں وافر تعداد میں دستیاب اسکالرشپس دی جاتی ہیں۔ یوں تو دنیا بھر میں ہی اچھے پڑھنے والے، ذہین طلبہ کو متوجہ کرنے کے لئےا سکالرشپ جاری کی جاتی ہیں لیکن چین میں ان کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔ یہاں ہر سال 300 کے قریب مختلف یونیورسٹیوں میں تقریباً سوا دو لاکھ غیر ملکی طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے اور ہر سال اس میں 5 فیصد اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ چین دنیا میں غیرملکی طالب علموں کو اسکالرشپ فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔

یہاں زیادہ تر اپلائیڈ سائنسز کے شعبوں میں طلبہ کو اسکالر شپس دی جاتی ہیں اور جدید ترین آلات اور ساز و سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اپلائیڈ سائنسز کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ چین کی اسکالر شپس کی اچھی بات یہ ہے کہ اس میں اپنی جیب سے خرچہ نہیں کرنا پڑتا اور یہ فلی فنڈڈ ہیں جبکہ ان کا ایپلی کیشن پراسس (درخواست دینے کا عمل) بھی بالکل مفت ہے۔ 

کچھ جزوی ایپلی کیشننز بھی ہیں، جہاں تعلیم تو فری ہے لیکن رہائش کا انتظام آپ کو خود کرنا پڑے گا۔ تعلیم کے حصول کے لیے آنے والے غیر ملکی طلبہ کے لیے چینی زبان سیکھنے کی کوئی شرط نہیں ہے لیکن دوران تعلیم چینی زبان کا چھ ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس ضرور کرنا پڑتا ہے، جوڈگری کے دوران بھی کرسکتے ہیں اور وہ یونیورسٹی والے خود کرواتے ہیں۔

چین میں تعلیم حاصل کرنے کا ایک اور اہم فائدہ دستیاب تعلیمی مضامین کی وسیع رینج ہے۔ چینی یونیورسٹیاں انجینئرنگ، میڈیسن، بزنس، کمپیوٹر سائنس اور سوشل سائنسز جیسے شعبوں میں پروگرام پیش کرتی ہیں، جو پاکستانی طالب علموں کو اپنے مطلوبہ کیریئر کے راستے تلاش کرنے کے لئے متنوع اختیارات فراہم کرتی ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین جانے والے پاکستانی طلبا کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس وقت بھی ایک بڑی تعداد وہاں موجود ہے۔ اس کی وجہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کے تحت توانائی اور مواصلاتی ڈھانچے کی تعمیر میں تیزی بھی باہمی تعلیمی روابط میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ 

چین کی طرف سے دیے جانے والے تعلیمی وظائف سے اب ہزاروں پاکستانی نوجوان فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مختلف شعبوں جیسے کہ ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ووکیشنل ٹریننگ میں مہارت حاصل کر رہے ہیں۔

چین کی حکومت نے پاکستانی نوجوانوں کو ان کے متعلقہ شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کے لیے طاقتور بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اسکالرشپ نوجوانوں کے لیے ایک قیمتی موقعہ ہے ۔ وہ مہارت اور تجربہ حاصل کریں، جو ان کی ملازمت کے مواقع کو بڑھا دے گا۔ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ کی مہارتوں کے دروازے کھول دیے ہیں تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔

اسکالرشپ کے لئے درخواستیں عام طور پر ستمبر یا اکتوبر میں مانگی جاتی ہیں ، وہ پاکستانی طالب علم جو ان سے استفادہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ ستمبر میں بذریعہ انٹرنیٹ سرچ کر کے ان سکالرشپس کے متعلق مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ 

ہمارے نوجوانوں کا چینی جیسی عظیم صنعتی قوت کے ہاں جا کر تعلیم حاصل کرنا پاکستان کے لئے نہ صرف فخر کی بات ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہمارے نوجوانوں بھرپور صلاحیتوں کے حامل ہیں۔