ڈاکٹر مظفر فاروقی
استاد جب جماعت میں طلبا سے سوال کرتے ہیں کہ ’’بڑے ہوکر کیا بنو گے؟ تو یہ جواب سننے میں نہیں آتا کہ،’’ میں بڑا ہوکر سائنس دان بنوں گی، بنو گا، البتہ ڈاکٹر، انجینئر، استاد وغیرہ بننے کی خواہش کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔آخرکیا وجہ ہے کہ بچے سائنس دان بننا نہیں چاہتے؟
غالباِِ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر گھروں میں والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجیئنر، ایم پی اے ، وکیل، ماسٹر کروانے کا ہی سوچتے ہیں۔ کبھی کسی نے اپنے بچوں کوسائنس دان بنانے کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی طلبا میں سائنس دان بننے کا رجحان نظر آتا ہے۔
اس سے انکار ممکن نہیں کہ آج کے دور میں دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ صرف اور صرف سائنس کے میدان میں ایجادات اور سائنس وٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہوئی ہیں اور اس کا آغاز یورپ میں سہولویں صدی سے ہی ہوگیا تھا۔
آج بھی صرف یورپی سائنس دانوں کے نام ہی لئے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ انسانی زندگی کی خوشحالی ، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی ترقی صرف اور صرف تعلیم میں پہناں ہے۔ انہوں نے اس تصور کو اپنی زندگیوں میں ڈھال لیا تو پھر ان کے معاشرے میں اخلاقی، معاشرتی، معاشی ترقی کے ثمرات رونما ہونا شروع ہوگئے۔
درخت سے سیب گرا تو نیوٹن نے اسے باآسانی کھاسکتا تھا، مگر اس کی سوچ کی گہرائی دیکھیں اس نے سوچا کہ آخر یہ سیب نیچے ہی کیوں گرا؟ ہوا میں معلق بھی ہو سکتا تھا؟ اور اوپر بھی جاسکتا تھا؟ یہی سوچ وفکر کی آگاہی تھی کہ نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کی۔
اب ذرا سوچئےکہ عوام کوجب بنیادی ضروریات ہی میسر نہ ہوں تو سوچ وفکر کی آگاہی کیسے آئے گی۔ جب صرف روٹی کی فکرہوتو وہ نیوٹن کی طرح یہ کیوں سوچے گا کہ سیب زمین پرکیوں گرا، ہوا میں معلق کیوں نہ ہوا؟ سائنس جیسا عملی مضمون صرف کتابوں تک محدود ہے۔طلبا کو سائنس کے بنیادی اصول سمجھانے کے بجائے اساتذہ کا صرف نصاب مکمل کرانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
سائنس کی زبوں حالی کا اصل ذمہ دار نصاب کے ساتھ اساتذہ اور ناقص طریقہِ امتحان بھی ہے۔ ان کا پورا زور کتابوں میں درج معلومات کو حرف بہ حرف لیکچر میں دہرانے پر ہوتا ہے۔ وہ تجربات کے ذریعے بچوں کو سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے پھر یہ کہ زیادہ تر اسکولوں، کالجوں میں سائنسی تجربات کے بنیادی سامان ہی نہیں ہوتے۔
طلبا کے لیے سائنس بھی رٹو طوطے کی طرح ہوکر رہ گئی ہے۔ نتیجتاً ان کی نصابی کتب سے بے رغبتی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ سائنس دان بننے کے خواہشمند نہ ہونے کے برابر ہے، ان میں سوچ کا عنصر بالکل بھی نہیں پایا جاتا کیوں کہ ابتدا ءسے ہی بچے کا قدرتی تجسس ختم کر دیا جاتا ہے، جبکہ سائنس تجسس کو پروان چڑھاتی ہے اور کیوں،کب اور کیسے جیسے سوالات پوچھنے پر مجبور کرتی ہےلیکن طلبا کو سوال کرنے پر ٹوکا جائے اور کہا جائے کہ جو کچھ کتاب میں لکھا ہے صرف وہی یاد کرنا ہے تو پھر سائنسی تعلیم کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔
طالبِ علم اس طریقے سے سیکھتا ہے گویا اس نےکچھ نہیں سیکھا۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم تنقیدی سوچ کو فروغ دینے میں ناکام رہا ہے۔ سائنسی سوچ، مسئلہ کا گہرائی سے مشاہدہ، اپنی صلاحیتوں کی بنا پر اس پر تحقیق اور مسئلے کے حل تک پہنچنے کا عمل ہے یورپی مالک اس پر کار بند ہیں وہ سائنس کو ایک تجرباتی مضمون کے طور پر اپنے طلبا کو پڑھاتے ہیں، جس میں تمام تر زور عملی تجربے پر ہوتا ہے۔
اب زمانہ بدل چکا ہے صرف نئی یونیورسٹیاں بنانے اور پی ایچ ڈی اسکالرز کی کھیپ تیار کرنے سے قابل سائنسدان نہیں ملیں گے۔ بہت سے طلباسائنس سے متعلق شعبوں مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ میں کچھ حد تک کامیاب تو ہیں، مگر سائنسی میدان میں کم علمی انہیں ان شعبوں میں جدتیں لانے نہیں دیتی۔
وہ طلبا جو سائنسی ایجادات کرنے میں اگر کامیاب ہوبھی جاتے ہیں تو ان کووسائل مہیا نہیں ہوتے، نتیجے میں یا تو وہ خود یورپی ممالک چلے جاتے ہیں یا وہ انہیں اپنے ملک بلا کر ان سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔ یہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کا وقت ہے۔
اربابِ اختیار مستقبل کے چیلنجز کو مدِنظر رکھ کر تعلیمی پالیسیاں بنائیں اور نوجوان سائنس دان پیدا کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں ۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں مزید پیچھے چلے جائیں گے۔
دنیا میں ہر لمحے نئی نئی ایجادات اور دریافتوں کا سیلاب امڈ رہا ہے۔کام کرنے کے بہتر اور موثر طریقے تلاش کیئے جارہے ہیں۔ اس تناظر میں تصور کریں کہ پندرہ بیس سال بعد دنیا بھر کے طلبہ کون سے سائنسی تصورات پڑھ رہے ہوں گے اور ہمارے بچے کہاں کھڑے ہوں گے۔
اساتذہ بچوں کو سائنس پڑھائیں نہیں بلکہ سکھائیں۔ طلبا میں سائنسی سوچ کو پروان چڑھا یا جائے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، بلکہ اصل مسئلہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جس کو از سر نو تشکیل دے کر اسکولوں میں محض کتابوں میں لکھا رٹانے اور نصاب مکمل کروانے کے بجائے بچوں کو عملی سائنس سکھائی جائے۔