وزیراعظم لیاقت علی خان کا آبائی شہر ہندوستان میں تھا جہاں انکے خاندان کی اچھی خاصی زمین تھی۔ پاکستان بننے کے بعد وہ اپنی بیگم کے ساتھ کراچی شفٹ ہو گئے۔ ایک روز ایک افسر نے انہیں فائل پیش کی اور بتایا کہ آپ کی ہندوستان میں جائیداد کے بدلے یہاں پاکستان میں زمین الاٹ کر دی گئی ہے، یہاں دستخط کر دیجیے۔ لیاقت علی خان نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے فائل واپس کی اور افسر سے کہا کہ پہلے ان بے آسرا مہاجرین کو آباد کیا جائے جو ہندوستان چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ اسی روز ایک کھانے پہ لیاقت علی خان نے یہ واقعہ سناتے ہوئے مہمانوں سے کہا کہ ’’اِس طرح کے بیوروکریٹ ہمیں تباہ و برباد کر دیں گے‘‘۔ یہ سب جمشید مارکر نے اپنی کتاب’’کور پوائنٹ‘‘ میں لکھا ہے۔ ہماری بیورو کریسی انگریز کے ایسے نظام کی پروردہ تھی جس میں حکمران کو خوش رکھنا امتیازی خصوصیت تھی۔ گو انڈین سول سرونٹس انتہائی قابل تھے، پھر بھی انگریز کے سامنے انکار کرنا ان کیلئےآسان نہ ہوتا۔ آزادی کے بعد سول سرونٹس کو ملک کے ذہین ترین دماغ تصور کیا جانے لگا۔ سو، جیسے ہی سیاسی لیڈرشپ میں خلا پیدا ہوا، اِن لوگوں نے اپنی جگہ بنائی۔ گورنر جنرل غلام محمد، صدر اسکندر مرزا اور وزیر اعظم چوہدری محمد علی بنیادی طور پر سِوِل سرونٹ ہی تھے۔ ایوب خان کے دور میں بیورو کریسی کی اسکریننگ کی گئی اور ’’بدعنوان اور نااہل افسران‘‘ کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ یہ عمل یحییٰ خان کے دور میں بھی کیا گیا۔ بعد ازاں جب بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے تیرہ سو سے زائد آفیشلز کو کرپشن الزامات پر فارغ کر دیا۔ انہی کے دور میں ایسے کئی افسر نوکری پر دوبارہ بحال کر دیے گئے جنہیں ایوب اور یحییٰ ادوار میں نا اہلی پر نکالا گیا تھا۔ اس عمل نے بیوروکریسی میں ایک خطرناک رجحان کو فروغ دیا۔ افسر یہ سوچنے لگے کہ اگر حکمران کے ساتھ معاملات ٹھیک ہیں تو کیریئر محفوظ ہے۔ چنانچہ اس فلسفے سے متاثر کئی افسر قوانین کی بجائے حکمران کی خواہش اور قربت کو ترجیح دینے لگے۔صاحبِ مَسنَد کو انکار کرنے والے ٹرانسفر کے سزاوار ٹھہرے اور ہاں میں ہاں ملانے والے ترقی کے زینے چڑھتے گئے۔
ملکی کامیابی کی ضمانت ایک آئیڈیل سول سروس کا خواب، تعبیر سے کوسوں دور ہے۔ سروس کے موجودہ اسٹرکچر میں ذہین ترین افسر کی بھی پروموشن کا تعین سروس میں بِتایا ہوا وقت کرتا ہے، کارکردگی کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ وقت کی اس اہمیت نے ہمارے بہترین اذہان کو بھی گھڑیال بنا دیا ہے جن کی سوئی ایک دائرے میں ہی چکر لگاتی رہتی ہے اور اس سے کبھی باہر نہیں آ سکتی۔ بیوروکریسی سے نت نئے آئیڈیاز لینے کیلئے انکی ترقی کو وقت کی قید سے آزاد کرنا ہو گا۔ سول سروس کے رائج قوانین کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے پابند رہتے ہوئے سو فیصد میرٹ کا فروغ ممکن نہیں۔ ایک افسر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے بھی اگلے گریڈ میں چلا جاتا ہے۔ دوسری جانب اس سے صرف ایک سال جونیئر آؤٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس کے باوجود کئی برس تک اول الذکر کی سینیارٹی تک نہیں پہنچ سکتا۔بیٹھے بٹھائے ترقی کے ساتھ ساتھ تنخواہ کا انتہائی کم ہونا بھی ایک ایسا عنصر ہے جو بیوروکریسی میں بگاڑ کا سبب بنا۔ افسر، معاشرے میں اَپر کلاس کے ہم پلہ نظر آنے کیلئے پیسہ بنانے لگے۔ ظاہر ہے کہ اس کیلئے اختیارات کا ناجائز استعمال ضروری تھا۔جنہوں نے تنخواہ پہ گزارا کیا، انہوں نے معاشرتی ضروریات پوری کرنے کیلئے ذاتی کاروبار شروع کر لیے۔ سول سرونٹس میں بزنس کے رجحان نے ان کی توجہ کو تقسیم کر ڈالا۔ نتیجتاً سرکاری امور بری طرح متاثر ہوئے۔ اس وقت سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد دائیں بائیں سے پیسہ پکڑنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔ ریفرنس کیلئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تفصیلی رپورٹ پڑھ لیجیے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں تجویز دی تھی کہ لگژری گاڑیاں رکھنے والوں اور ایک ہزار اسکوائر فٹ سے زائد رقبے والے گھروں کے مالکوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے۔ پھر اس ڈیٹا کی مدد سے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے۔ کسی وجہ سے اس تجویز پر عمل نہ ہو سکا۔ اسی تجویز کو اگر ہم بیوروکریسی کی اسکریننگ کیلئے استعمال کریں تو بُرا نہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کس افسر کی سروس کے آغاز کے وقت کیا حیثیت تھی اور وہ اب کتنے اثاثے رکھتا ہے۔ تین سال قبل صحافی اشرف ملخم نے درجنوں پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا۔ ان کی لسٹ میں سرکاری افسران بھی شامل تھے۔ اس وقت پاکستان کے کسی سرکاری ملازم کی اتنی تنخواہ نہیں ہے کہ وہ اپنے خرچے نکال کر اسلام آباد ہی میں گھر بنا سکے۔ پھر دیارِ غیر میں اس طرح کی جائیدادوں کا ہونا بہت سے سوال کھڑے کرتا ہے۔ یقیناً اپنے فرائض کو کمپرومائز کیے بغیر یہ سب حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ ملک بیوروکریسی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ لیکن اِس طرح بھی نہیں چل سکتا۔ ملک کے اس اہم ستون میں اصلاحات کی بے حد ضرورت ہے تا کہ سچے، قابل اور محنتی لوگ آگے آ سکیں جو سیاسی لیڈر شپ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے اصول و قوانین کے مطابق چلیں۔ ماضی میں مختلف سیاسی ادوار میں سول سروس ریفارمز بارے کافی اعلانات ہوئے لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے جا سکے۔ اس عدم توجہی سے گورننس بری طرح متاثر ہوئی۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا میں گورننس کے معاملے میں 133 ویں جبکہ بھارت 66 ویں نمبر پر ہے۔ گورننس میں بہتری لانےکیلئے وزیراعظم نے بیوروکریسی میں اصلاحات کا عندیہ دیا ہے۔ بطور وزیر اعلیٰ انہوں نے ایسے کئی کام کیے جن کا ہونا مشکل تھا۔ وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں، امید ہے یہ کام بھی کر جائیں گے۔